کھڑکی پر کِن مِن

یہ تحریر 478 مرتبہ دیکھی گئی

کھڑکی پر کِن مِن، کِن مِن، بارش اور سرد ہوا، باہر اوور کوٹ اور مفلر اور دِل میں کِن مِن، کِن مِن۔ دستکیں ٹھنڈے قطروں کی، ماضی کے چھٹ چکے بادلوں سے اور کوئی یاد بھی نہیں محمد سلیم الرحمن غصہ کیسا۔ چلے جائیں گے، وہ بھی ایک ایک کر کے، جن کے دم سے کمروں میں گرمائش ہے۔ کون کب تک کسے یاد کرے گا، ہوا چلتی رہے گی، کبھی ہولے کبھی تیز، پتوں کو چھوتی ہوئی اور زمین پر بکھر جائیں گے پتے، جو کبھی سبز تھے، درخت گنجے ہو جائیں گے۔ بعض لاشوں کے دانت ہوتے ہیں اور بعض کے نہیں۔ کیا فرق پڑتا ہے، اگراُس کے شوہر کی ساری قوتیں اُس کے اندر مصروف ہوں یا وہ اپنی سوچوں میں گُم رہے، بارش ہوتی رہے گی، جب تک اُسے ہونا ہے، اُداسی کیا ہے، ہے بھی یا نہیں اور اگر نہیں ہے تو بھی کوئی چیز دِل پر چُنری کی طرح چھائی ہوئی ہے، دِل…!

(۲)

دِل کی بات چل ہی نکلی ہے تو کیوں کر ممکن ہے کہ تمھاری بات نہ ہو۔ تُم نہیں تھیں تو سُورج کے ہوتے ہوے رستے ایک غُبار میں چھپے ہوے لگتے تھے اور تُم ہو تو سُورج تک رستوں پر ایک غبار کی طرح چھائی ہوئی ہو اور رستوں کا وجود سُورج اور غبار کا مرہونِ منت نہیں ہوتا، رستوں کو پتہ ہے اور رستے اپنے راہی خود ڈھونڈتے ہیں، اگرچہ راہی خود کو چالاک یا بیوقوف یا پاگل سمجھ رہا ہوتا ہے، رستہ کہیں سے بھی شروع ہو کر کہیں بھی ختم ہو سکتا ہے، اگرچہ وہ شروع سے پہلے اور ختم کے بعد بھی ہوتا ہے، مَیں رستہ نہیں ہوں، لیکن مجھ پر یہ بے شمار قدموں کے نشان کیوں کر بنے، کیا یہ ہمیشہ سے تھے؟ مَیں نہیں جانتا، کہ دِل اور مَیں اور تم رستوں سے بے خبر اور قدموں کے نشانوں سے بے خبر دُھلی ہوئی تختی کی طرح دُھوپ میں پڑے رہے اور پڑے رہیں گے کہ بے لفظی اپنی اصل میں ایک لفظ ہی ہے کہ صفر کی اہمیت اُس کی دریافت سے پہلے بھی اُتنی ہی تھی جتنی کہ آج ہے، اگرچہ ایک یہودی ساہوکار اور ہندو بنیے اور مسلمان سیٹھ نے اس کی قیمت کو اپنی مرضی کے تابع کر رکھا ہے، تو کیا میری اور تمھاری قدر و قیمت وال سٹریٹ کے آنسوؤں اور مسکراہٹوں سے بندھی ہوئی ہے…!

(۳)

تیسرے صفحے پر مَیں نے سوچا کہ مَیں کیوں اور کس کے لیے لکھ رہا ہوں؟ کاغذ اور سیاہی کے پیسے دینے پڑتے ہیں تو کیا میں فضول خرچ ہوں، میرے قاری، تُم کہیں نہیں ہو۔ تمھیں ابھی پیدا ہونا ہے لیکن کیا یہ کاغذ اور سیاہی تمھاری پیدائش کا انتظار کر سکیں گے اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تحریر بمع کاغذ کے تمھاری پیدائش تک زندہ رہنے کی سختیاں جھیل لے لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تُم تحریر تک پہنچ سکو یا اگر پہنچ سکو تو ہو سکتا ہے تم کسی اور زبان کی کوکھ سے جنم لو کہ تحریر نہیں جانتی کون سی کوکھ حمل کی منتظر ہے اور ہر لذّت حمل بننے کی خواہش مند بھی تو نہیں ہوتی کہ لذّت برائے لذّت بھی تو خدا کی تخلیق ہے جیسے تخلیق برائے تخلیق جس کی لذّت سے فرشتے آگاہ نہیں، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرو ورنہ زمین پر فرشتے ہی فرشتے ہوتے اور میری تحریر تحریر بننے سے پہلے ہی مولانا کی کڑاہی کی سُوجی بن جاتی…!