نظم، جو کبھی لکھی جائے گی

یہ تحریر 511 مرتبہ دیکھی گئی

مَیں اِک نظم لکھوں گا لیکن سُنانے نہیں آؤں گا
وہ بہت خوبصورت، بہت چنچلی اور غنائت سے بھرپُور ہو گی
مگر مَیں سنانے نہیں آؤں گا!

نہ گرجے کی گھنٹی
نہ کلمہ شہادت
نہ تابُوت ہو گا
فقط نظم ہو گی کہ پیدائشِ مرگ پر قہقہہ زن
کہ زیر و زبر، پیش کے بیچ میں جزم ہو گی،
فقط ایک وقفہ!

نہ ہونے سے ہونے تک آنے کا لمحہ
زمانوں کی جُفتی
ستارہ جنم لے رہا ہے، لکھوں گا،
خلا میں،

زمیں سے اُدھر گاؤں گا
اپنے ہونے کے نغمے!

سُنانے نہیں آؤں گا، تُم سنو گی،
یہ کشتی، یہ ملاح،
دریا کہ اپنی روانی میں اندھا،
وہ شفاف پانی کی سطریں
تمھاری سماعت کو چُھو چُھو کے گزریں گی
لیکن مَیں تم کو بتانے نہیں آؤں گا
راز ڈُوبے ستاروں کا، جِن کی کشش
تیری انگڑائی سی!

زندگی،
مَیں ترے واسطے
اُن خداؤں کی تنہائی کو بزم لکھوں گا،
جو
تیرے خوابوں کے رستوں میں مارے گئے!