مُردوں کا ٹیلا

یہ تحریر 166 مرتبہ دیکھی گئی

اس سال کا عالمی کتاب میلہ میرے لیے اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ ہندی کے ایک اہم ادیب رانگے راگھو سے تھوڑی شناسائی ہو گئی۔ وہ 17 جنوری 1923 کو آگرہ میں پیدا ہوۓ اور 12 ستمبر 1962 کو آگرہ ہی میں ان کا انتقال ہوا۔ 39 سال کی مختصر سی زندگی میں کئی اہم کتابیں لکھیں۔ انہوں نے تخلیقی سطح پر بہت مالدار زندگی گزاری۔ ان کا ایک رپور تاژ قحط بنگال پر ہے جس کا نام “طوفانوں کے بیچ” ہےجو 1946 میں شائع ہوا۔ وہ ناول نگار، کہانی کار، نقاد اور شاعر کی حیثیت سے بیسویں صدی کے اہم ترین ادیبوں میں شامل ہیں۔ بنیادی طور پر ان کا تعلق تمل زبان سے تھا لیکن ہندی میں لکھا۔ ان کا اصل نام ترو ملل نمباکم ویر راگھو آچاریہ تھا۔ انہوں نے اپنا قلمی نام رانگے راگھو رکھا۔ انہوں نے جرمنی اور فرانسیسی ادیبوں کی کئ تحریروں کو ہندی میں منتقل کیا۔ ان کا ایک اہم کارنامہ شکسپیئر کی تخلیقات کا ہندی میں ترجمہ بھی ہے۔ اس اہم کام کے لیے انہیں ہندی کا شکسپیئر بھی کہا جانے لگا۔ انگریزی ، ہندی اور سنسکرت کے ساتھ ساتھ تمل اور تیلگو سے بھی وہ اچھی طرح واقف تھے۔ انہوں نے کم و بیش پچیس ناول لکھے ۔ آٹھ کہانیوں کے مجموعے اور آٹھ تنقیدی کتابیں بھی ہیں۔ رانگے راگھو کا فکشن بنیادی طور پر ہندوستان کی قدیم تاریخ اور تہذیب سے وابستہ ہے۔ ان کے تنقیدی مضامین بھی زیادہ تر انہیں مسائل کو زیر بحث لاتے ہیں۔ ان کی تحریروں کے زمانے کو دیکھیں تو مطالعے کا ایک زاویہ مل سکتا ہے۔ ان کا ناول ” مُردوں کا ٹیلا” موہن جودڑو سے متعلق ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس موضوع پر اس طرح کا کوئی اور ناول لکھا گیا ہو۔ اسی لیے کسی نے کہا ہے کہ “رانگے راگھو کا یہ ناول قدیم ہندوستانی تہذیب میں داخل ہونے کا پہلا دروازہ ہے”۔ اس کے ایک صفحہ کا ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

“کچھ دیر تک شور یوں ہی اٹھتا رہا۔بھیڑ کچھ مشتعل معلوم ہو رہی تھی۔بھکاری نے کہا۔کس دن کے انتظار میں جینے کا مکر کر رہے ہو ابھاگو؟تمہاری لاشوں تک پر تمہارا اختیار نہیں ہے۔کیا ہوگا اس جائیداد کا ؟تمہارے مرد اکاش کی عظمت کے سامنے پاتال میں ناک رگڑ رہے ہیں, تمہاری عورتیں آسائش کی سولی پر ٹنگی کل کاریاں بھر رہی ہیں۔یا ہا ہا کار سے انہوں نے زمین کو حیران کر دیا ہے،یہ نہ تم بتا سکتے ہو نہ تمہاری بہن،نہ تمہاری ماں۔
بھیڑ غصے سے چلا اٹھی۔تیرا خاتمہ ہو نیچ،تیرا زوال ہو۔اسی وقت امن قائم کرنے والے فوجیوں نے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے دھاتو کے ڈنڈے لے کر ان پر حملہ کیا۔ان کے بدن پر کپڑے نہیں تھے۔کمر کے نیچے تکونے چوروں کے موٹے کپڑے باندھے تھے جو گھٹنوں کو بھی نہیں ڈھک پاتے تھے۔بائیں ہاتھوں میں ایک ایک بڑی ڈھال تھی جس کے ساتھ ہی وہ اپنی انگلیوں میں لمبا پتلا نوکیلے فلک والا بھالا لیے ہوئے تھے۔ان کے سر پر بال گھٹے ہوئے تھے ایک جو کہ گنجا تھا اپنے ہاتھ میں لٹکنے والا دیپک لیے ہوئے تھا ۔ یہ مصر کی فوجی سجاوٹ کی نقل شروع ہو گئی تھی۔موہن جودڑو کے بڑے جاگیرداروں نے حفاظت کے لیے ان نئے اوزاروں کو اپنا لیا تھا۔اچانک ہی اس حملے سے لوگ گھبرا گئے۔شور اور بھی بڑھ گیا۔کسی کے سر میں چوٹ آئی کسی کا ہاتھ جھنجھنا اٹھا۔ایک ایک کر وہ سب بھاگنے لگے۔فوجیوں نے بے رحمی سے ان کے گروہ کو کچل دیا۔اور بھیڑ چھٹ گئی۔بھکاری اکیلا گاتا رہا۔اس پر کسی فوجی نے حملہ نہیں کیا۔وہ تو تھا ہی پاگل۔کون نہیں جانتا کہ ایک دن یہی بھکاری موہن جودڑو کا عظیم عالمی فاتح تھا۔جس کی تجارت اتنی بڑی تھی کہ لوگ سن کر سر جھکا دیتے تھے۔آج میں کسی وجہ سے پاگل ہو کر راہ کی دھول چھانتا پھر رہا تھا۔لوگوں کے دل میں اس کے تئیں ایک راز کا جذبہ تھا۔وہ لوگ اس کے بارے میں کتنا کم جانتے تھے۔تبھی معلوم ہوتا تھا جب وہ بیچ سڑک پر کھڑا ہو کر عجیب عجیب باتیں کہتا تھا۔اس کی ان نظر انداز کرنے والی باتوں میں آنے والے زمانے کا انتقام عجیب عجیب باتیں کہتا تھا۔کبھی کبھی وہ مذہبی لوگوں کی طرح بے دھڑک بیان کرتا ہے۔تب سب اس کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ جاتے۔وہ انہیں منمانا گالیاں دیتا ۔فوجی لوٹ گئے۔خاموشی لوٹ آئی۔دھیرے دھیرے دکانیں بھی بند ہو گئیں۔دیپک بجھ گئےآدھی سے بھی زیادہ رات ہو گئی۔آکاش میں ایک میلا چاند نکل آیا ۔اس کی کپکپاتی ہوئی چھاؤں نے عظیم محلوں کے نیچے اندھیروں کو جمع کر دیا۔بڑے بڑے اونچے گھر کی بلندیوں پر لگے لوہے ٹمٹماتے سے چمک اٹھتے تھے ۔راستے کے جس حصے پر چاندنی گرتی تھی وہ اور بھی خوفناک معلوم ہوتی تھی۔جیسے کوئی برا خواب دیکھتے دیکھتے جاگ گیا ہو اور یقین نہ کر سکا ہو کہ یہ سب سچ ہےیا متھ۔ بھکاری بھوکا ہی ایک کنارے جا کر لیٹ رہا۔اس وقت سڑکوں کی گمبھیر خاموشی میں کسی کے پاؤں کی آہٹ سنائی دی۔ہمیں پناہ چاہیے۔
بھکاری ہنسا اس نے کہا پناہ؟اتنے بڑے مہا نگر میں بڑے جاگیرداروں اور شہریوں کو چھوڑ کر ایک بھکاری سے پناہ مانگنے والے تم کون ہو بے وقوف؟”

مُردوں کا ٹیلا
رانگے را گھو
پہلی اشاعت 1946

سرور الہدیٰ
20/02/2024