خواب نیندوں کا محتاج ہوتا تو مرتا

یہ تحریر 228 مرتبہ دیکھی گئی

ستاروں کی محفل،
ستاروں کی محفل میں چاند اور سورج
کا مسجُود ہوں مَیں!
مَیں اِک عکس تھا، آئنے میں، جسے اِک بدن کی بشارت ملی تھی،
زمانے،
نہ جانے مجھے کِس نے لا کر تری بھُول میں رکھ دیا ہے!

تری یاد ہوتا
ترا پھُول ہوتا، مَیں تیرے مساموں میں کھِلتا
سمندر کے ساحل پہ کھڑکی جو کُھلتی
ہوا میں مری باس ہوتی،
ترا شعر ہوتا کہ تُجھ کو رسالت ملی تھی
نئے دن کی
جِس کے سرابوں میں جنت!
صحیفے،
کہ جو میرے حصے میں آئے،
تری چمنیوں سے دُھواں بن کے اُٹھے،
فلک پر کھلے پھُول، جِن کو زمینوں پہ کھلنا تھا،
آنسو،
مری آنکھ کا تھا،
ترے راویوں میں ہویدا ہوا ہے!

یہ سیلاب، یہ زلزلے جِس قلم کی سیاہی سے لکھے گئے
اُس قلم کی قسم کھا کے کہتا ہوں:
”وہ مَیں نہیں تھا،
مرا خواب تھا
جو ترے آئنوں میں کھِلا!
خواب نیندوں کا محتاج ہوتا تو مرتا!!“