کتاب کا دن اور ایسا دن

یہ تحریر 39 مرتبہ دیکھی گئی

اس وقت دہلی میں تیز ہوائیں چل رہی ہیں اور پتے درختوں سے گر رہے ہیں۔شفق کی لالی غبار آلود فضا کے ساتھ آتی ہوئی شام کے بارے میں کچھ کہتی ہے۔تیز ہوا اپنے ساتھ جس غبار کو کمرے کے اندر لا رہی ہے اسے روکنے کی کوشش کیا کی جائے۔کچھ کتابیں جو پہلے سے گرد آلود نہ سہی بہرحال گرد کے ساتھ ہیں وہ آنے والی اس نئی گرد کا خاموشی کے ساتھ استقبال کرتی ہیں ۔کتابوں کے بارے میں جو کچھ لکھا اور پڑھا گیا ہے بلکہ سنا گیا ہے اس میں اجتماعی تجربے کا زیادہ دخل ہے۔اب یہی دیکھیے کہ ایک دم سے موسم بدل گیا اور ہوائیں کتابوں کے اوراق کو پلٹنے لگیں بلکہ اڑانے لگیں ۔ان اڑتے ہوئے اور کچھ اپنی سطح سے ٹوٹتے اور بلند ہوتے ہوئے اوراق کے ساتھ دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔لیکن یہ سچ ہے کہ ہر کتاب کا اڑتا ہوا اور ٹوٹتا ہوا ورق دل کی دھڑکن کو تیز نہیں کرتا۔کتاب کو پڑھنے کا جو انفرادی تجربہ ہے وہ بھی ایک معنی میں اجتماعی تجربے کو رات دیتا ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ انفرادی تجربہ اجتماعی بننے کے عمل میں اپنی ہی روش اور رویے کا متلاشی رہتا ہے اور لازماً پڑھنے والوں کے انتخاب میں اس کی نظر انتخابی ہو جاتی ہے۔مطالعے کا انفرادی تجربہ کتاب وقت اور مقام کے ساتھ وابستہ ہے۔مقام کی تبدیلی سے بھی کوئی کتاب کسی نئے احساس سے دوچار کرتی ہے۔ایک ایسا وقت بھی ہے جو پڑھنے کے عمل کو مختلف بنا دیتا ہے۔آس پاس کی دنیا سے بے نیاز ہو کر کتاب بھی قاری کو کہیں دور بہا لے جاتی ہے یا اٹھا لے جاتی ہے۔میر نے جسے بے خودی کہا تھا اس کا رشتہ کتاب کی اس غرض سے بھی ہے جو قاری کو اندر سے توڑ بھی دیتی ہے اور ٹوٹنے کا یہ احساس رفتہ رفتہ توانائی سے ہمکنار کرتا ہے۔کتاب کس طرح وجود میں اتر جاتی ہے اور ساری عمر وہ کہیں اور نہیں جاتی اس کا تجربہ بھی ہماری قرآت کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔لیکن قرآت کی تاریخ نہ تو لفظ کی تاریخ ہے اور نہ لفظ سے وابستہ دیگر مسائل کی تاریخ۔قرآت کی تاریخ شاید لکھی بھی نہیں جا سکتی۔ڈائری میں کتابوں کو پڑھنے اور ان سے استفادہ کرنے کی جو اطلاعات ملتی ہیں وہ کبھی کبھی ڈرانے لگتی ہیں۔یہ سوچ کر حیرانی ہوتی ہے کہ کوئی اچھی کتاب کیوں کر کسی کو اپنے بارے میں تاریخی اعتبار سے کچھ لکھنے کی اجازت دے سکتی ہے۔جو کتاب وجود میں اتر جاتی ہے کبھی کوئی دوسری کتاب اس کی جگہ لے لیتی ہے یا پھر دونوں کے درمیان مفاہمت کی صورت نکل آتی ہے۔کبھی یہ بھی سوچنا چاہیے کہ وقت کے ساتھ کتنی کتابیں ہمارے وجود کا لازمی حصہ بنیں اور اس عمل میں ہم نے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے۔کتابیں کسی کی تحریک اور مشورے پر بھی پڑھی جاتی ہیں یا پڑھی جا سکتی ہیں لیکن کتاب قاری کے ساتھ جو معاملہ کرتی ہے اس میں تحریک بہت پیچھے چھوٹ جاتی ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کتاب کا انتخاب چاہے کوئی بھی کرے،اصل مسئلہ قرآت کے تجربے کا ہے۔قرآت کا ہر تجربہ اپنے ساتھ فکر و احساس کی ایک نئی دنیا کو لاتا ہے اور اس عمل میں ہمارے شعور کا کم کم دخل ہوتا ہے۔یہ نئی دنیا وجود میں آنے کے بعد شعور کو فعال بنا دیتی ہے اور اکثر ایسا ہوا ہے کہ ایک نیا تجربہ پہلے تجربے کو بے دخل کر دیتا ہے۔لیکن ایسا نہ ہر کتاب کے ساتھ ممکن ہے اور نہ ہر قرآت اور قاری کے ساتھ۔
کتاب کو پڑھنے اور خاموشی کے ساتھ پڑھنے کی جو تہذیب ہے اس کا تعلق کتاب کے موضوع سے بھی ہے۔ایک ہی موضوع پر لکھی گئیں کتابوں کی قرآت کا تجربہ مختلف ہوتا ہے۔یہ بھی ہوا ہے کہ کسی موضوع سے متعلق ایک کتاب دوسری کتابوں سے الگ کر دیتی ہے۔کتاب کیوں پڑھی جائے اور کیسے پڑھی جائے یہ وہ سوالات ہیں جو آج کی ڈیجیٹل دنیا میں غیر جذباتی انداز سے سوچنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ چھپے ہوئے لفظ میں جو چھپی ہوئی سچائی ہے وہ کسی اور صورت میں ویسی دکھائی نہیں دیتی۔ پرانے اور کالے نقوش خستہ کاغذ کے ساتھ جس تجربے سے گزارتے ہیں وہ ہماری علمی اور تہذیبی تاریخ کا ایک اہم حوالہ ہے۔خستہ کاغذ اپنے موضوع کے مسائل اور میلانات کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے اس قدر توانا ہو جاتے ہیں کہ انہیں نئے کاغذ سے کوئی خطرہ لاحق نہیں۔نیا کاغذ آنکھوں کو اچھا لگتا ہے حروف زیادہ روشن دکھائی دیتے ہیں۔روشنی نئے کاغذ میں ہے اور تاریکی کالے حروف میں۔کبھی یہ لکھنے کو بھی جی چاہتا ہے کہ روشنی پرانے کاغذ کے کالے حروف میں ہے اور تاریکی نئے کاغذ میں۔کتابوں کا ذخیرہ ایک اطمینان سا دلاتا ہے کہ جب جی چاہے گا کتاب اٹھا لیں گے اور پڑھ لیں گے۔کتابوں کی طرف دیکھنا کتنا حوصلہ دیتا ہے۔اور اسی احساس کو تیز بھی کرتا ہے کہ اتنی کتابوں کو پڑھنے کے لیے ایک زندگی کافی نہیں۔وہ کتابیں بھی جو ذاتی ذخیرے میں نہیں ہیں ان کے بارے میں غور کیجئے تو محسوس ہوگا کہ جیسے وہ کہیں راستے میں ہیں اور ایک وقت آئے گا کہ وہ اس ذخیرے کا حصہ ہو جائیں گی۔ کتابیں سفر میں رہتی ہیں یا کتابیں پڑھنے والے کو خیال کی سطح پر دور دراز علاقے میں پہنچاتی دیتی ہیں اور واپسی ممکن نہیں ہوتی۔کتابوں کو جن لوگوں نے رفیق سمجھا اور کہا ہے وہ کیسے لوگ تھے انہیں پڑھنے پڑھانے کے کتنے وسائل حاصل تھے اور انہیں کیسے کیسے لوگ ملے۔جب کتابیں مرکز میں تھیں تو شخصیات کا حوالہ دور جا پڑتا تھا۔کتاب کا کوئی دن ہوتا ہے یا کوئی ایسا دن بھی ہوتا ہے جو کتاب کا بھی ہوتا ہے صاحب کتاب کا بھی اور قاری کا بھی۔کتاب کا دن ایک بہانہ ہے کتاب کے بارے میں سوچنے اور غور کرنے کا۔یہ بہانہ بھی جب رسم بن جائے تو کتاب کو دیکھنے اور پڑھنے کا عمل فوری طور پر اس احساس سے خالی ہو جاتا ہے جو قاری کی سب سے بڑی طاقت ہے۔یہ وقت تو اس کا نہیں ہے کہ کتابوں کے بارے میں الگ الگ لکھا جائے اور یہ کہا جائے کہ کتابوں کے بغیر کوئی کیسے رہ سکتا ہے اس حقیقت کے باوجود کہ کتابوں کے بغیر بھی دنیا کا کاروبار جاری ہے اور وہ کاروبار بھی جاری ہے جسے علمی کہا جاتا ہے۔کتابیں رسوا ہوتی ہیں اور ان کی رسوائی کا سبب معاشرہ بن جاتا ہے یا وہ ذہن جو ایسی کتابوں کے بارے میں سوچنے کا متحمل نہیں ہے۔کبھی میں نے لکھا تھا نظم کی صورت میں کہ اچھی کتابوں کا مقدر تنہائی ہے۔یہ اچھی کتابیں فکشن،شاعری،تنقید اور دوسری اصناف سے متعلق ہو سکتی ہیں۔مشکل یہ ہے کہ ہم جسے اچھی کتاب کہتے ہیں، دوسروں سے بھی یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ بھی ایسا ہی سمجھیں اور ایسا ہی کہہیں ۔یہیں سے ہماری تنہائی اور پریشانی کا آغاز ہوتا ہے۔جن کتابوں نے ہمیں تنہا کیا ہے اور ہماری ذہنی تنہائی کو بڑھایا ہے ان کا مجھ پر احسان ہے۔اور جن کتابوں نے میری تنہائی اور ذہنی تنہائی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ان کا بھی احسان ہے۔تنہائی اور ذہنی تنہائی میں کتابیں اضافہ کرتی ہیں اس صورت میں کہ جو کچھ پہلے پڑھا سوچا اور سمجھا تھا کسی خاص موضوع کے تعلق سے وہ اور طرح سے سوچنے اور غور کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔شاید اس کا تعلق قاری کی اپنی طبیعت کی افتاد سے ہے۔کوئی تحریر اور کوئی تقریر جب صرف موجودگی کا احساس دلائے تو اس کے بارے میں کیا لکھا اور کہا جائے۔لفظوں میں جینے لفظوں میں سوچنے لفظوں میں رہنے اور لفظوں کو صبح و شام سمجھنے اور بنانے کی غلطی اور جتن کرنے والے لوگ دنیا کی نگاہ میں کیسے معلوم ہوتے ہیں۔لفظوں کا مزاج موضوع کے ساتھ اور مصنف کے ساتھ بدل بھی جاتا ہے۔لیکن لفظوں کی بنائی ہوئی دنیا یا لفظوں سے بنی ہوئی دنیا جتنی پرانی ہوتی جاتی ہے اتنی ہی اس میں زندگی کے آثار پیدا ہوتے جاتے ہیں۔پھٹی پرانی حیات کتاب کے پھٹے پرانے کاغذ سے کتنی مماثل ہے۔زندگی کو ڈھونڈنے والے نہ جانے کہاں کہاں بھٹکتے ہیں۔کتابوں کے اس ذخیرے کے درمیان کتنی ایسی کتابیں ہیں جنہیں ابھی پڑھنا باقی ہے۔پڑھی گئیں کتابیں بھی کس حد تک ہماری ہو سکی ہیں یہ خیال بھی پریشان کرتا ہے۔پڑھتے جاتے ہیں اور بھولتے جاتے ہیں بھولتے جاتے ہیں اور پڑھتے جاتے ہیں۔شاید پڑھنے اور بھولنے کے اس عمل میں کوئی ورق ٹھہر جائے کوئی لفظ ٹھہر جائے کوئی خیال ٹھہر جائے ۔کتابوں کا کوئی دامن تو نہیں ہوتا اس کے کنارے ہوتے ہیں۔اسے کنارہ کہا جائے یا کوئی اور نام دیا جائے جو بھی کہا جائے گا وہ کتاب کا بیرونی حصہ ہی کہا جائے گا۔آج جی چاہا کہ اتنی کتابوں کے درمیان حالی کی یادگار غالب کی پہلی اشاعت کو دیکھا جائے۔1897 میں نامی پریس کانپور سے یہ کتاب شائع ہوئی۔اس وقت میرے پیش نظر یہ پہلا مطبوعہ نسخہ ہے جس کے اوراق پھٹے تو نہیں ہیں لیکن خستہ ہیں اور حالی کی طبیعت کی سنجیدگی اور اداسی دونوں کا پتہ دیتے ہیں۔نہ جانے کیوں اس کتاب کو دیکھتے ہوئے حالی کی سنجیدہ اور اداس صورت سامنے آگئی ۔
1897 سے آج کی تاریخ تک اس کتاب نے کتنے سرد و گرم کا مقابلہ کیا ہے۔اس عرصے میں نہ جانے اس کے کتنے ایڈیشن شائع ہوئے مگر اس کی پہلی اشاعت کو پڑھنے اور دیکھنے کا تجربہ کتنا مختلف ہے۔اسے دیکھنا بھی دراصل پڑھنا ہے اور پڑھنا صرف دیکھنا ہی نہیں ہے بلکہ وقت کے ساتھ اس کے مدھم ہوتے ہوئے رنگ کو اپنی آنکھوں میں اتارنا بھی ہے۔اس کتاب کا غالب مقدمے شعر و شاعری کے غالب سے بہت مختلف ہے۔پہلی اشاعت کا یہ نسخہ میرے لیے نہ صرف آج کی تاریخ میں بلکہ ہر بدلتی تاریخ کے ساتھ میری انکھوں کو روشن کرتا جاتا ہے۔اس کتاب کو ایک ایسی جگہ پر رکھا ہے جو اس موضوع سے متعلق ہے اور نہ ہی اس سکرپٹ سے۔ مجھے اس کتاب کے تعلق سے جس اجنبیت کا احساس ہوتا ہے اس کا سبب اس پاس کی وہ کتابیں ہیں جو حالی کی اخلاقیات سے بہت دور ہیں۔کبھی اس کی جگہ تبدیل کر دیتا ہوں اور کبھی ڈیپارٹمنٹ سے گھر لے جاتا ہوں۔کیا کوئی کتاب اپنی پہلی اشاعت کے ساتھ اس طرح بھی ایک قاری کو ساتھ لیے پھرتی ہے۔پنڈت رتن ناتھ سرشار کی سیر کہسار کا پہلا ایڈیشن بھی پاس ہی رکھا ہوا ہے۔اور ایک مخطوطہ بھی جو اپنے زمانی فاصلے پر کچھ زیادہ خوش نہیں۔
میں نے تنقید کی کتابیں دن کے حصے میں بہت کم پڑھی ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تنقیدی کتابیں کہانی کی کتابوں کی طرح پڑھی جا سکتی ہیں۔پڑھی جا سکتی ہیں لیکن اس کے لیے ذہن کا تربیت یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔سفر نامے خود نوشت خطوط اور افسانے دن کے اجالے میں اگر پڑھے جائیں تو اس سے ان موضوعات کی صحت پر کیا فرق پڑے گا۔دن میں مسافر کو کہانیاں سنانے والے لوگ بھی اب کہاں ہیں کہ وہ راستہ بھول جائے گا۔شمیم حنفی نے ایک مختصر سا مضمون لکھا تھا افسانہ دن کے اجالے میں۔ یہ مختصر سا مضمون قرآت کے ایک تجربے کا حاصل ہے۔
میں نے شہر میں اچھی کتابوں اور خوابوں کی پامالی بھی دیکھی ہے ۔ یہ بھی دیکھا ہے کہ کتابوں نے بہت شور مچایا اور بہت جلد خاموش ہو گئیں۔یہ بھی دیکھا ہے کہ کتابوں کی خاموشی نے دیر تک اور دور تک ادبی فضا کو سنجیدہ اور پر اسرار بنائے رکھا۔کتابوں کا اسرار دراصل وقت کو سمجھنے اور اس کی گروہوں کو کھولنے کا ایک ہم وسیلہ ہے۔یہ بھی دیکھا ہے کہ اچھی کتابیں پریشانی کا سبب بن گئی ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کتاب کا دن کون سا اور کیسا دن ہے یہ کن کتابوں کے لیے ہے۔اگر کتابیں پریشانی کا سبب بن جائیں تو ایسے ہی کس بات کا جشن منایا جائے اور کون سا بھولا ہوا سبق یاد دلایا جائے۔جب کتاب سے زیادہ کتاب کا مصنف بولنے لگے تو سمجھیے کہ کتاب پر مشکل وقت آگیا ہے۔لیکن کتاب کی گویائی کو سننے اور محسوس کرنے کے لیے ایک ایسی تہذیب کی ضرورت ہے جو اچھی کتابوں کے مطالعے سے آتی ہے اور ان شخصیتوں کے درمیان بیٹھنے سے بھی جن کے ذہن کی تعمیر و تشکیل میں دنیا کی بڑی شخصیات اور بڑی کتابوں نےحصہ لیا ہے۔کتاب کا دن کیسا دن ہے کس کے لیے ہے۔یہ دن کیا کچھ کہتا ہے اور جو کچھ کہتا ہے اس کے آئینے میں ہمارا چہرہ کتنا شرمندہ ہوتا ہے۔کتاب کا دن ہمارا دن کیوں نہیں اور ہمارا دن کتاب کا دن کیوں نہیں ہو سکتا۔کوئی دن ایسا بھی گزرے جو کتاب سے خالی نہ ہو کتاب کے ذکر سے خالی نہ ہو اور کتاب شب و روز کے عمل کو کچھ جذباتی اور حسی بھی بنا دے۔کوئی ایسا دن بھی آئے جب کتابوں کا خیال نہ آئے ۔سوچیے وہ دن کیسا ہوگا۔۔ جب کتابیں وجود کو پارہ پارہ کر رہی ہوں اور اس احساس کو جگا رہی ہوں کہ کتنا کچھ ہے جو کتابوں میں ہے اور وہ ہم تک نہیں پہنچا۔ ایسے میں کتابوں کی دنیا کسی کے لیے بھی خوش گمانی اور غرور کی دنیا نہیں ہو سکتی۔شور کرنے والی کتابوں نے صاحب کتاب کو کتنا مغرور بنا دیا ہے۔کیسے کیسے وسائل اختیار کیے گئے اچھی کتابوں اور بڑی کتابوں سے فرار اختیار کرنے کے لیے۔کتاب کا دن اور ایسا دن۔کوئی دن ایسا بھی ہو کہ چھپی ہوئی کتابوں کا خیال نہ آئے ۔ جو کتاب وجود کے اندر رکھ دی گئی ہے اس کی دیکھ دیکھ بھی ضروری ہے۔اس کتاب کو خطرہ اس بازار سے جس میں کوئی تمیز باقی نہیں رہی۔کتاب رسوائی کا سب بھی بن جاتی ہے اسے محسوس کرنے کے لیے ایک دولت کی ضرورت ہے جو کسی دکان میں نہیں۔نوجوان ذہین قلمکاروں کی کتابوں اور تحریروں کو پڑھنے اور ان کی تعریف کرنے والے کم رہ گئے ہیں ۔کم عمر ادیبوں کی ذہانت ناقابل برداشت ہے۔ووت کے سمٹنے کا احساس محاسبہ کے عمل کو تیز کرتا ہے ۔
اب یہاں کی شام گہری ہوتی جا رہی ہے۔تیز ہوائیں تھم گئی ہیں تھوڑی بارش کے بعد درخت بھی نہائے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور پتے زمین پر گرنے کے باوجود آسودہ ہیں۔جو پتے درخت سے گرے ہیں وہی دراصل زندگی کا مفہوم سمجھاتے ہیں اور انہی سے کہانیاں پیدا ہوتی ہیں۔چند پتے بلکہ چھوٹے پتے اڑ کر کمرے کے اندر داخل ہو گئے انہیں بھی کل یہاں سے رخصت ہو جانا ہے۔کتابوں کے درمیان ان کا وقت جو رات کے ساتھ گزرے گا اسے بھی کوئی زبان ملنی چاہیے۔محمد حسین آزاد کا ایک شعر بہت یاد آتا ہے۔
جہاں و کار جہاں کس نے یہ دراز کے
اٹھو یہاں سے اب ہو گئی ہے شام بہت۔

نئی دہلی
23 اپریل 2024