افسانے، ڈرامے،ناول کے چند اوراق

یہ تحریر 825 مرتبہ دیکھی گئی

محمد سلیم الرحمٰن کے افسانوں کی کتاب چھپ گئی۔اسے “قوسین”لاہور نے چھاپا ہے۔اس اشاعت کا مدت سے انتظار تھا۔پہلا افسانہ ساگر اور سیڑھیاں سویرا 26 میں چھپا۔یہ رسالہ 1963 میں چھپا تھا۔یہ ساٹھ سال پہلے کی بات ہے۔کتاب پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ انتظار اس پھل دار درخت کے پروان چڑھنے جیسا تھا جو بڑھوتری میں وقت تو لیتا ہے لیکن اس کا پھل اتنا ہی میٹھا ہوتا ہے۔اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اچھی تخلیقی نثر کیسی ہوتی ہے تو ان کہانیوں کو رک رک کر پڑھیں۔یہ آپ کو مناظر کی ایسی کائنات میں لے جائیں گی جہاں آپ محسوس کریں گے کہ انسانی تخیّل کتنا ہرا بھرا ہوتا ہے۔انسانی خیال کی دنیا کتنی منفرد ہوتی ہے۔ممکن ہے آپ کو کہانی بیان کرنے کا تشریحی انداز نظر نہ آئے جس کے ہم عادی ہو چکے ہوتے ہیں لیکن دھیان کے بساے ہوے ایسے کئی شہر نظر آئیں گے جن میں دیر تک زندگی گزارنے کو جی چاہتا ہے۔جس کے درودیوار نئے نئے سے ہیں۔یہ شہر اردو فکشن کی تاریخ میں اپنی بنیاد سے لے کر تکمیل تک مختلف اور منفرد نقشے پر بسایا گیا ہے۔

مجموعے میں سب سے پہلا افسانہ “ساگراورسیڑھیاں”،جو محمد سلیم الرحمٰن کا پہلا افسانہ بھی ہے، پیچیدہ ہونے کے باوجود اہم ہے۔یہ گویا اس افسانوی دنیا کا منشور ہے جو کتاب میں موجود ہے۔ہو سکتا ہے کہ بعض قاری اس بھول بھلیاں میں اٹک یا اکتا جائیں اور آگے نہ پڑھیں۔ہمیں اس کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔افسانے میں بتایا گیا ہے کہ تخلیقی عمل تخیّل،خواب اور واقعیت سے عبارت ہے۔اگر تخیّل کا تعلق خواب اور واقعیت سے یا خواب کا تعلق تخیّل اور واقعیت سے اور واقعیت کا تعلق تخیّل اور خواب سے نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔افسانے میں طرح طرح کے مناظر اور مکالمے ہیں جو مل جل کر ایک طلسمی اکائی کو جنم دیتے ہیں۔
“نیند کا بچپن” میں ایک لڑکا اس شک میں مبتلا ہے کہ لوگ جاگ رہے ہیں یا سو رہے ہیں۔”سائبیریا” میں ایک کلرک طرح طرح کی باتیں سن کر خوف زدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔”راکھ”میں ایک ایٹمی جنگ کا ذکر ہے جو ہوئی تو کہیں اور ہے لیکن اس کے اثرات دور دور تک پہنچے ہیں۔
“بیکار مباش”میں ایک سرکاری افسر کا احوال ہے جسے زندگی میں معنی نظر نہیں آتے۔جس کا طاقتوروں پر بس نہیں چلتا اور آخر ایک کمزور آدمی کو مار ڈالتا ہے۔کل بارہ افسانے جن میں ہر ایک ترشا ترشایا ہے۔کسی میں طنز، کسی میں حیرت۔
“آوازیں “میں الف لیلہ ولیلہ کے ایک قصے کو الٹا دیا گیا ہے۔خزانہ گویا فضل ربانی ہے۔جب وہ ہاتھ آ گیا تو پھر اور کسی بات کی کیا فکر۔
کتاب میں دو ڈرامے بھی ہیں جن میں ایکشن کی تیزی میں کہیں کمی نہیں آتی۔ایک نامکمل ناول کے چند اوراق بھی ہیں جنھیں پڑھ کر خیال آتا ہے کہ یہ مکمل ہو جاتا تو شاید خاصے کی چیز ہوتا۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/