اب کوئی نقش مرے پیشِ نظر دوسرا ہے

یہ تحریر 191 مرتبہ دیکھی گئی

دیارِ ادب میں شعر ونثر کا اجتماع بالعموم کم کم دیکھنے کو ملتا ہے۔شاعرِ نغز گو رہوارِ تخیّل کو ایڑ لگاتا ہے اور نادیدہ دُنیاؤں کے حیرت آگیں مناظر کو اعجازِ ہُنر کے ساتھ شعر کے قالب میں اُتار لاتا ہے۔غیر مرئی اور غیر متشکل حالتوں اور کیفیتوں کی تجسیم اس طور کرتا ہے کہ اس کا مرقعِ ہُنر مندی ’’کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست‘‘ کا مصداق ٹھہرتا ہے مگر اختراع وابداع کے وسیلوں سے کامل آشنائی اور اظہار وبیان کے جملہ سلیقوں کے گہرے وقوف کے باوصف جذب وشوق میں گندھی ہوئی نثرِ دل پذیر کے چند جملے لکھتے لکھتے اُس کی سانس پھولنے لگتی ہے اور اس کا پندارِ شعر ، نثر کے کشادہ راستوں کی بھید بھری پہنائی میں گُم ہو جاتا ہے۔کچھ ایسی ہی بلکہ اس سے بھی کہیں مہیب صورتِ حال،صاحبِ طرز نثر نگار کو دیارِ شعر میں وارد ہونے پر پیش آتی ہے۔افسانہ طرازی کی دل کشی اور داستان سرائی کی لذت کو مصرعے کے بطون میں اتارتے سَمے صاحبِ اسلوب نثر نویس کا شعلۂ ہُنر بُجھنے لگتا ہے۔ شہرِنثر کی بھید بھری پہنائی کی واقفیت مصرعے کے دامن تک پہنچتے پہنچتے اپنی چمک سے محروم ہو جاتی ہے۔دیارِ ادب کی اس پراسراریت کا راز اس قدر آسانی سے کھلنے والا نہیں۔ یہ معما ہے جس کی گرہ کشائی کا یہ موقع نہیں اورنہ مجھ ایسے طالبِ علم کایہ منصب ہے۔میں تو یہ عرض کرنے چلا تھا کہ شعر کی دُنیا الگ ہے اور نثر کا دیار الگ۔بادی النظر میںشعر کی دُنیا کا باسی نثر کے دیار میںمسافر دکھائی دیتا ہے اور نثر کے دیار کا باشندہ شعر کی دُنیا میںاجنبی۔تاہم قدرت کی فیاضی کچھ تخلیق کاروں کو دونوں منطقوں کی شہریت عطا کر دیتی ہے اور دونوں اقلیموں میں ان کے ہُنر کا سکہ چلتاہے۔ان کا اشہبِ قلم شعر ونثر کے پُرپیچ راستوں میں اپنی سبک خرامی کا جادو جگاتا ہے اور ان کے رشحاتِ فکر سے دونوں منطقوں کی ثروت میں اضافہ ہوتا ہے۔ہمارے ڈاکٹر تحسین فراقی ایسے ہی مجمع البحرین تخلیق کاروں میں شامل ہیں،جن کو مبدئِ فیاض نے دونوں منطقوں کی شہریت سے نوازا ہے۔ان کا شعر اور ان کی نثر دونوں اپنی دل پذیری اور رعنائی کے باعث دامن کشِ دل ہیں۔ اعجازِ ہنر کے نمونے اُن کی نگارشاتِ نظم ونثر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر تحسین فراقی ہمارے عہد کے اُن اصحابِ فکر ونظر میں شامل ہیں،جن کے ذوق وشوق کی دُنیا ہمہ رنگی اور بوقلمونی کے ذائقے سے معمور ہے۔انھوں نے صحیح معنوں میں متعدد شعبوں میں اپنی تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایسے ایسے معرکہ آرا کارنامے انجام دیے ہیں،جن کی تابانی سے بلاشبہ ہمارے عہد کا ادب مستنیر ہوا ہے۔ وہ زندگی بھر اُردو ادبیات کی تعلیم و تدریس سے وابستہ رہے۔اُن کے خوانِ علم اور دامنِ فیض سے بلامبالغہ سیکڑوں تازہ واردانِ علم وادب نے اکتساب کیا۔ان کے حلقۂ درس میں بیٹھنے والوں نے علم وفضل کی متانت،مطالعے کی بیکرانی،حسنِ ادا کی طرفگی، حافظے کی تازگی، اظہارکی نفاست، بیان کی لطافت اور لہجے کی مٹھاس کوباہم گلے ملتے دیکھا ہو گا۔اورینٹل کالج سے تعلق قائم ہوا توانھوں نے بہ رضا ورغبت جادۂ تحقیق کا انتخاب کیا،جس پر ان کے اکابر پیش روؤں: مولوی محمد شفیع، حافظ محمود شیرانی،علامہ عبدالعزیز میمنی، شیخ محمد اقبال، ڈاکٹر سید عبداللہ،ڈاکٹر افتخار صدیقی اور ڈاکٹر وحید قریشی کے نقوشِ قدم ثبت تھے۔انھوں نے اپنے فطری ذوقِ تلاش وجستجو کے باعث تحقیق کے اس گراں قیمت ورثے کی نہ صرف یہ کہ حفاظت کی بلکہ اس کی زیب وزینت اور وقعت ورفعت میں اضافے بھی کیے۔انھوں نے مشرقی ادبیات کے بحرِ بسیط کی غواصی کی اور اپنے دامن کو گوہرِ مراد سے بھر لیا۔مشرقی ادبیات کی ثروت مند روایتوں سے اکتسابِ ضیاکے نتیجے میںاُن پر منکشف ہوا کہ مشرق کی تہی دامنی کا مغربی پروپیگنڈا سراسر جھوٹ پر مبنی ہے اور محض مشرق کے بغض میں وہ اسے ہوا دیے چلا جاتا ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے تنقید کے شعبے میں قدم رکھا توروشِ زمانہ کے برخلاف مانگے تانگے کے اُجالے سے اپنے جہانِ نقد کو عارضی چمک دمک دینے کے بجائے اُس تہذیبی سرمائے سے ریزہ چینی کی جسے صدیوں کااعتبار حاصل تھا اور مشرقی فنون وادب کی تفہیم وتعبیرکے اصول وقواعد کا ایک مکمل نظام جس کی قلمرو میں شامل تھا۔خام نظریوں اور کچے پکے مغربی تصورات کی تقلیدِ محض اور مسلسل جگالی کی نام نہادتنقیدی فضا میںانھوں نے مشرق کی توانا اور مستحکم تنقیدی روایت کے فیضان سے چراغ روشن کیا ،جس سے نہ صرف ادب اور تخلیق کے ظاہری نقوش ابھر کر سامنے آئے بلکہ اس کی باطنی دُنیا بھی چمک اُٹھی۔تنقید کایہ ہمہ رنگ اندازاپنے منصب سے کماحقہ‘ آگاہ ہونے اوراپنے وظیفے کا کامل وقوف رکھنے کے سبب تحقیق وتخلیق کا ہم رتبہ ٹھہرتا ہے۔ڈاکٹر تحسین فراقی مشرق کی اس عظیم الشان تنقیدی روایت کے محافظ اور وارث ہیں اور ان کا تنقیدی سرمایہ فکر ونظر کے انھی تنقیدی منطقوں کی توسیع ہے جنھیں گردشِ زمانہ سے کوئی باک نہیں۔

ڈاکٹر تحسین فراقی کی تخلیقی شخصیت کا اولیں اظہار شاعری میں ہوا۔انھوں نے شعر گوئی کا آغاز تواپنے زمانۂ طالب علمی میں کر دیا تھا مگر ستر کی دہائی میں انھیں بطور شاعر شناخت ملی۔وہ اپنی واضح نظریاتی وابستگی کے باعث حلقۂ ادبِ اسلامی کے ادبی افق پر طلوع ہوئے۔یہ زمانہ افکار کی آویزش ، تصورات کے ٹکراؤ اور نظریات کی جنگ کا زمانہ تھا اور مختلف ادبی تحریکیں اور تنظیمیں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار تھیں۔تحریکوں اور تنظیموں کا نصب العین اور منشور، ادب کے ذریعے عام ہو رہا تھا۔مقصدیت کی گراں باری نے شعر وادب کی فضا کو بوجھل اور بڑی حد تک بے تاثیر کر دیا تھا۔ادب محض پروپیگنڈے کا ایک وسیلہ اور خاص منشور کا ترجمان بن کر رہ گیا تھا۔اشتراکیت، جنس، نفسیات،وجودیت، جدیدیت،سائنس،لامذہبیت اور اس نوع کے دوسرے موضوعات کی زنجیریںتخلیق کاروں کو جکڑ کر بند گلیوں کی بے نور فضا میں محبوس کر رہی تھیں اور تجربہ برائے تجربہ کا وفور لسانی اور موضوعاتی حوالے سے مضحکہ خیز صورتوں کی تشکیل میں منہمک تھا۔ہیئتوں کی اکھاڑ پچھاڑ،زبان کی توڑ پھوڑ اور مخصوص تکنیکی صورتوںکا برتاؤ ادب وفن کا وظیفہ قرار پانے لگا تھا۔ان حالات میں تخلیق کاروں کا ایک طبقہ اپنی واضح نظریاتی وابستگی کے باوجود ادب کی تہذیبی اور جمالیاتی اقدار پر کاربند رہا۔ادب کی تہذیبی وجمالیاتی قدروں کے گہرے عرفان کے باعث ان کی تخلیقات نظریات اور مقاصد کی گراں باری سے بڑی حد تک محفوظ رہیں۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کی ابتدائی شاعری نظریاتی وفورسے بغل گیر رہی ،ان کی شاعری کا بلند آہنگ لہجہ تحریکی مقاصد کے زیرِ اثر رہامگر بہت جلد وہ ادب کے حقیقی وظیفے سے لذت یاب ہو کر اس محدود چار دیواری سے نکل آئے ۔ان کی تخلیقات میںتفصیل اور تصریح کا رنگ پھیکا پڑنے لگا اور اس کی جگہ رمزیت اور اشاریت کی دل آویزی اپنا جادو جگانے لگی۔شاعری کی جمالیاتی قدروں کے ساتھ واقفیت کے نتیجے میں ان پر یہ بات کھلی کہ شاعری کا حقیقی وظیفہ روحِ تہذیب کی جلوہ گری ہے۔تہذیب محض خارج میں پھیلی ہوئی دُنیا اور اس کے مسائل ومعاملات سے عبارت نہیں بلکہ باطنی زندگی کے اسرار ورموز اور احوال وکیفیات بھی اس کے دائرے میں عکس فگن ہیں۔تہذیب محض ارضی اور زمینی تصورات وتفکرات کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ روحانی اور مابعد الطبیعیاتی مکاشفات ومعاملات سے بھی ایک گونہ تعلق رکھتی ہے۔ڈاکٹر تحسین فراقی کی شاعری میں روحِ تہذیب اپنی ہمہ رنگی کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہے۔ اس میںارضی اور سماجی زندگی کے مسائل ومعاملات کے ساتھ روحانی اور مابعد الطبیعیاتی فضا کا رنگ وآہنگ بھی اپنی نمود کرتا ہے۔’’نقش ِ اوّل ‘‘ سے ’’شاخِ زریاب‘‘تک اور ’’شاخِ زریاب ’’ سے ’’چراغِ سبز‘‘ تک کی تخلیقات میں روحِ تہذیب کی متحرک اور جمال آفریں تصویریں موجود ہیں،جن کی دل پذیری اور رعنائی ہوش و حواس کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

ڈاکٹر تحسین فراقی نے فکر واحساس کی ترسیل کے لیے متعدد اصناف اور شعری پیمانے جیسے : غزل، پابند نظم، نعت،رباعی، آزاد نظم، قطعہ اورفرد استعمال کیے ہیں اوربڑی حد تک ہر صنف اور ہئیت کے مزاج اور امتیازی عناصرکو پیشِ نگاہ رکھتے ہوئے قدرتِ کلام کا مظاہرہ کیا ہے مگر اُن کی مناسبتِ طبع کا عمدہ ترین اظہار غزل میں ہوا ہے۔غزل جیسی ہزار شیوہ صنف سے کامل آشنائی اس کی روایت کے گہرے عرفان کے بغیر ممکن نہیں۔ڈاکٹر تحسین فراقی کی غزل کا رنگ وآہنگ کلاسیکی ہے اور غزل کی صدیوں پر پھیلی ہوئی مستحکم اور فروزاںروایت کے ساتھ اُس کارشتہ نہایت مضبوط ہے۔عام طور پر کلاسیکیت اورروایت کو کہنگی کی علامت خیال کیا جاتا ہے جو کسی طرح بھی درست نہیں۔روایت کوئی جامد شے نہیںہوتی بلکہ اس کی مثال تو دریائے رواں کی سی ہے ۔زندہ روایت ہر عہد کے انھی عناصر کو اپنی گرہ میں باندھ کر اگلے سفر پر روانہ ہوتی ہے ،جن میں بقا کا شعلہ مستور ہوتا ہے۔ڈاکٹر تحسین فراقی کی غزل روایت کے انھی تابدار عناصر سے اپنا رزق حاصل کرتی ہے۔انھوں نے غزل کی خوش رنگ پوشاک پر جو بیل بوٹے کاڑھے ہیںوہ دل کشی اور جاذبیت کے امین ہیں اور ان میں جدت وحرارت کے وہ تمام جوہرصرف ہوئے ہیں جو روایت کی ثروت میں توسیع اور اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔مشتے نمونہ از خروارے’’چراغِ سبز‘‘کے یہ چندا شعار دیکھیے ،جن کے دامن سے چھلکتی تازہ کاری ،روایت کی خوش رنگ پوشاک پر اپنے ہونے کی مُہر ثبت کرتی دکھائی دیتی ہے:

تیری گل پیرہنی ، تیری تماشا طلبی
ایک عالم کو یہاں کھینچ کے لے آئی ہے
٭
دیکھ لیں ! صورتِ پیغامِ وصال آ پہنچا
میں نہ کہتا تھا کہ آئے گا جواب آخرِ کار
٭
بے تاب تھے دیکھیں حدِ معدوم سے آگے
کچھ بھی نہ سُجھائی دیا معلوم سے آگے
٭
تیرے ہونے سے یہ دن کتنے حسیں لگتے تھے
اب ترے بعد میاں! کس کو سہارا کیا جائے
٭
پھر بھی سر بستہ پہیلی کی طرح راز رہے
سب کے بوجھے ہوئے ہم ، سب کے بتائے ہوئے ہم
٭
چلا کوہِ ندا کی سمت یا گھر لوٹ آیا
نہیں معلوم لیکن وہ ندا اُس تک بھی پہنچی
٭
کوئی بھی جب مرے دریائے معنی میں نہ اُترا
مجھے خود ساتھ اپنے لے گئی منجدھار میری
٭
جتنے حاضر تھے ، ہو گئے پتھر
جونہی محفل میں تم کھڑے ہوئے ہو

ڈاکٹر تحسین فراقی کی شاعری کا موضوعاتی تنوع دیدنی ہے۔انسان، کائنات، سماج، تہذیب اور زندگی اُن کی شعری اقلیم کے شاداب اور ہمہ رنگ منطقے ہیں۔اُن کی شاعری میں اُن کا عہد اپنے تمام تر مسائل ومعاملات کے ساتھ جلوہ گر ہے۔جدید انسان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی کی کشمکش اور تیز رفتار زمانے کے ساتھ تبدیل ہوتی سماجی قدریںاُن کے عصری شعور سے ہم آہنگ ہو کر شاعری کی حریم میں اُتر آئی ہیں۔آشوبِ عصرکی تلخی اور اخلاقی قدروں کازوال اُن کی آنکھوں کو نم ناک اور دل کو گراں بار رکھتا ہے۔استعماری قوتوں کی بربریت ،خوف اور دہشت کی بنتی مٹتی تصویروں کی ہیبت ناکی،حد سے بڑھی ہوئی مادیت پرستی کا آزار،عالمگیریت کے پنجۂ خونیں کی گرفت میں سسکتی شناختیں،ملتِ اسلامیہ کی زبوں حالی اورانسانی بے حسی کے روح فرسا واقعات نے اُن کی شعری کائنات کی حدود کو وسیع کر دیا ہے۔ ڈاکٹر فراقی کی شاعری محض لمحۂ موجود سے سروکار نہیں رکھتی بلکہ اس کا تعلق ایک طرف ماضی اور دوسری طرف فردا سے بھی جُڑا ہوا ہے۔ شاعرکا رجائی مزاج اس شکستہ حالی،ریزگی اوربے بسی کے ماحول میں بھی قنوطیت اور یاسیت کی فضا خلق کرنے کے بجائے امیدکی شمعیں روشن کرتا ہے۔اس کے لہجے کا بل یقین کی قوّت سے مستحکم ہے اور اسی یقین کے باعث اُس کی آنکھوں میں خوابِ فردا کی چمک ماند نہیں پڑتی:

مدت سے دے رہا ہے گواہی ہمارا دل
اُٹھے گی بالیقیں یہاں اِک دن صدائے خیر

آشوبِ عصر کی اذیت ناکی اور معاشرتی زندگی کی پریشاں حالی کے عذاب ِ مسلسل میں زندگی کرنا کچھ کم تکلیف دہ نہیں اور اگر اس کے ساتھ ساتھ فرد کو ذاتی زندگی کے آلام ومصائب اور دل خراش سانحات کی آزمائش سے بھی گزرنا پڑجائے تو یہ دُہرا عذاب دل کی دُنیا اُجاڑ دیتا ہے۔ ’’چراغِ سبز‘‘ کے شاعر کواس دُہری اذیت سے گزرنا پڑا۔ڈاکٹر فراقی کی زندگی مسلسل حوادث کی زد میں رہی ہے مگر سب سے درد ناک حادثہ انھیں ۲۰۱۸ء میں پیش آیا۔انھوں نے اپنے جواں سال بیٹے عثمان نوید کو اپنی آنکھوں کے سامنے موت کی آغوش میں جاتے دیکھا۔ان پر قیامت ٹوٹ پڑی اور ان کے دل کی دُنیا تہ وبالا ہو گئی۔خالقِ کائنات پر غیر متزلزل ایمان کی دولتِ بے پایاں اگر انھیں میسر نہ ہوتی تو اس صدمۂ جانکاہ سے بچ نکلنا اُن کے لیے کسی طرح ممکن نہ تھا۔ راحتِ قلب وجاں کی جدائی کو انھوں نے رضائے الہٰی جان کر سرِ تسلیم خم کر دیامگر اُس کی یادوں کا سیل ان کے وجود کو مسلسل تڑپائے جاتا ہے’’چراغِ سبز‘‘ کی کچھ غزلیں اسی خوں رنگ سانحے کی ترجمان ہیں۔ شاعر نے درد و سوز کی کیفیت کو لفظوں کے قالب میں نہیں اُتارا بلکہ کلیجہ نکال کر کاغذ پر رکھ دیا ہے:

سفر سمے تری بے نور ہوتی آنکھوں کو
میں تک رہا تھا عجب بے بسی کی صورت تھی
٭
گرد وپیش آتی ہے ہر دم ترے انفاس کی باس
روز اس دل میں کوئی پھول کھِلاتا ہے ترا
٭
جل بُجھ گیا سب وجود میرا
اِک راکھ کے ڈھیر کا سماں ہے
شہریارا! اسے تج دینے کے معنی کیا تھے
تو نے جس دل پہ کئی سال حکومت کی تھی
تجھے پکارتا پھرتا ہوں ، کو بہ کو کب سے
جواب دے مرے یارا کہاں چلا گیا ہے

ڈاکٹر تحسین فراقی کی شاعری کا فنی سراپا اُن کے رچے ہوئے فنی شعور اور قدرتِ کلام کی گواہی دیتا ہے۔لفظوں کا چناؤ،مصرعوں کادر وبست، تمثال کاری، ترکیب سازی،اظہار وبیان کی لطافت،زیبائشی عناصر کی جلوہ گری اوراوزان وبحور کی ترنم ریزی شاعر کی ہنر مندی اور سحرکاری پر دال ہے۔استعارات وتشبیہات اور اشارات وکنایات کی نادرہ کاری شعر کے باطنی اور ظاہری جمال کو دل کشی کا نیازاویہ عطا کرتی ہے۔تکنیکی اور فنی عناصر کے صَرف میںشاعر کا اختراعی اور ابداعی ذوق جا بجا اپنا جلوہ دکھاتا ہے اور اوراق کی چار دیواری میںاعجازِ ہنر کی خوش رنگ تصویریںاپنے انفرادی خط وخال کا جادو جگاتی ہیں۔’’چراغِ سبز‘‘ کا گلستانِ آرزو ڈاکٹر فراقی کے ذوقِ ہمہ رنگ کا گواہ ہے۔غزل کے ساتھ ساتھ انھوں نے رباعیات، نظموں،منظوم تراجم اور پنجابی شاعری کے خوش رنگ پھول کھلا کراس گلستانِ تخلیق کی زیب وزینت کو چہار چند کر دیا ہے۔

’’چراغِ سبز‘‘ کی معنویت کا پھیلتا افق شاعر کی طبعِ سرشار اور ذوقِ لطیف کا آئینہ دار ہے۔روشنی ، شادابی، یقین، اثبات، امکان،صداقت،فقر اور ہدایت کے روغن سے مہکتی یہ متاعِ شعر بازارِ ادب کی حدت وحرارت کو بڑھانے کا سبب ٹھہرے گی،مجھے اس کا یقین ہے۔