غزل

یہ تحریر 37 مرتبہ دیکھی گئی

گردش میں لاکے بھید بھری کائنات کو
مہمِیز کر رہا ہے کوئی حادثات کو

بےعکس آئنوں میں کسی عکس کی تلاش
ہوتی تو لوگ پوجتے لات ومنات کو

بیگانگی کی کُہر میں مِٹتے ہوئے نقوش
پہچانتے نہیں ہیں پیار، التفات کو

پہلے جگہ کہاں تھی یہاں جو ترے اسیر
لیکر قفس میں بیٹھ گئے شش جہات کو

اس راستے کی بھیڑ میں کس کس کا ساتھ دیں
گَر ساتھ دیں تو نام دیں کیا ایسے ساتھ کو

زندان شب کو پھونکنے نکلا ہے آفتاب
بالائے طاق رکھ کے ہر اِک احتیاط کو

لہجے کا زہر پھیل گیا لا شعور تک
زاہد نہ کاٹ پائی کوئی بات بات کو

وہ راستوں کی بھیڑ ہے کس کس کا ساتھ دوں
اور ساتھ دوں تو کیا کہوں اس اختلاط کو

میرے لیے وہ لہجہ سدا کا تھا زہر خند
میں کیا کروں شیرینیِ لب کے فرات کو

جتنے تمہیں گلے ہیں مری ذات ہی سے تھے
میں نہ ہوا تو کوسو گے پھر کس کی ذات کو

پھر زمزمہ سرا ہے کوئی فرشِ عرش پر
اب دیکھیے کیا روپ ملے ممکنات کو

وہ پھول چننے آئی تھی پھر بھول کیوں گئی
سو سو طرح کا غور ہے بھنورے کی گھات کو

کچھ لوگ آدمی بھی نہیں ہیں مگر دماغ
یوں ہے کہ آئنہ ہیں وہ عالم صفات کو