نشیب سے فراز تک

یہ تحریر 299 مرتبہ دیکھی گئی

“ہمارے علاقے میں پینے کا پانی مشکل سے ملتا ہے مگر موت آسانی کے ساتھ دستیاب ہے۔” ص133
دوسرے اسلامی ممالک کا تو علم نہیں لیکن برصغیر پاک و ہند میں یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ صدیوں سے رائج رسم و رواج کو اپنی تعلیمات پر بالعموم فوقیت حاصل رہی ہے۔ اسلام میں بیوہ کو نکاحِ ثانی کی اجازت ہے لیکن شاید ہندوانی رسم و رواج سے متاثر ہو کر مسلمان بھی بیوہ کی شادی کو اچھا نہیں سمجھتے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی مولانا قاسمؒ نانوتوی کے سرانح میں لکھتے ہیں: “مولانا اسماعیل کا یہ بیان امیر شاہ نے نقل کیا ہے۔ کہتے تھے کہ جب میں اپنی بہن کو مشکوٰۃ وغیرہ پڑھاتا تھا تو نکاحِ ثانی کے فضائل قصداً چھوڑ دیتا تھا کہ مبادا میری بہن کو ترغیب ہو اور وہ نکاح کرے۔” (ص13، جلد دوم)۔ جب علمائے کرام کا یہ حال ہو تو دوسرے مسلمانوں کا پوچھنا ہی کیا۔
عارف خٹک کے ناول کا پس منظر خیبرپختون خوا کا ایک دور افتادہ کہستانی گانؤ پالا ہے۔ مرکزی کردار میرنامی لڑکا ہے جس کا تعلق غریب خاندان سے ہے۔ وہ صبح کو تمام گانؤ کی بھیڑبکریاں چَرانے کے لیے پہاڑوں میں نکل جاتا ہے اور انھیں شام کو اپنے مالکوں کے پاس پہنچا دیتا ہے۔
میر کے اہلِ خانہ خیرات پر پلتے ہیں۔ بیشتر افراد اپنی غریبی اور پس ماندگی کو تقدیر سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ لیکن کوئی فرد ایسا بھی نکل آتا ہے جسے گرد و پیش کی ناانصافیوں اور ظلم و ستم کی کوئی تُک دکھائی نہیں دیتی۔ میر بھی ایسا ہی لڑکا ہے اور اسے اپنے بڑوں کی حرکات اور قتل و غارت میں عقل کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ پہاڑوں میں ایک دن اس کے سامنے ایک لڑکی، جسے وہ اس کے حسن کی وجہ سے پری سمجھتا رہا تھا، اور لڑکے کو مار ڈالا گیا جو آپس میں محبت کرتے تھے اور پہاڑوں میں آ چھپے تھے۔ یہ قتل غیرت کے نام پر کیے گئے۔
میر تاج بی بی کو بھی پسند کرتا تھا جو خوش شکل تھی اور جس کے بارے میں مشہور تھا کہ گل فراز خاں اسے سوات سے خرید کر لایا ہے۔ وہ ہاتھ میں سونے کا بھاری کنگن پہنے رہتی تھی جس میں نگینے جڑے تھے۔ گانؤ کی عورتیں اسے پسند نہ کرتی تھیں اور رنڈی سمجھتی تھیں۔ خود نمبردار اور اس کے گھر والے اس سے اچھا سلوک نہ کرتے۔ وہ میر پر مہربان تھی۔ اس لیے میر کہتا تھا کہ “آپ یہاں سے بھاگ جائیں۔ یہ لوگ آپ پر ظلم کرتے ہیں۔” ایک دن وہ سچ مچ غائب ہو گئی اور سب نے کہا کہ وہ بری عورت تھی اور بھاگ گئی۔ بعد میں اس کی لاش میر کو اتفاقاً ایک جگہ ریت میں دبی ملی۔ کنگن کی وجہ سے میر نے اسے پہچان لیا۔ یہ واضح نہیں کہ اس نے خودکشی کی تھی یا اسے قتل کیا گیا تھا۔ خودکشی قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے۔ سنگ دل اور حریص قاتل بھلا سونے کا بھاری کنگن چھوڑ کر جا سکتے تھے؟
میر ان تمام باتوں کا ذکر، جو اس کی سمجھ میں نہ آتی تھیں، اپنی دادی سے کرتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ باپ یا ماں سے پوچھنے پر اس کی ٹھکائی ہو سکتی ہے، صحیح جواب نہیں مل سکتا۔ دادی کے جوابوں سے بھی اس کی تسلی نہیں ہوتی تھی۔ ایک دفعہ اس نے پوچھا کہ “اگر کوئی بندہ کسی کو مار دے تو مقتول کے وارث بجائے مجرم کو مارنے کے بے گناہ باپ، بھائی اور چچازادوں کو کیوں مارتے ہیں؟ “دادی نے کہا کہ “اس کو ہمارے ہاں پشتون ولی کہتے ہیں۔” میر نے کہا کہ “یہ قانون تو غلط ہوا ناں؟” دادی کے پاس میر کے چھبتے ہوئے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ آخر میں دادی نے جو کہا وہ سب سے گہرا طنز تھا۔”یہ پشتون ولی مردوں کا بنایا ہوا قانون ہے۔”جہاں عورتوں کو ان کے معمولی سے معمولی حق سے بھی محروم رکھا جائے وہاں اسی طرح کے رسم و رواج پروان چڑھتے ہیں۔
ابھی مزید الجھنیں میر کی منتظر تھیں۔ اس نے سنا کہ مسجد کے ملّا عبدالقدوس اور نمبردار نے شربت گل اور ثواب دین کے درمیان صلح کرا دی ہے۔ دونوں نے وہ قتل معاف کر دیے جو انھوں نے یا ان کی اولاد نے کیے تھے۔ صلح کن شرائط پر ہوئی؟ ثواب دین کی پوتی، جس کے والد کو شربت گل کے بیٹے نے قتل کیا تھا وہ ثواب دین کی بہو بنے گی اور ثواب دین کی بڑی بیٹی شربت گل سے بیاہی جائے گی۔ میر یہ سوچتا ہی رہ گیا کہ شربت گل کی پانچ سالہ بیٹی ثواب دین کے بیس سالہ بیٹے کی دلھن کیسے بنے گی اور ثواب دین کی اٹھارہ سالہ بیٹی ستر سالہ شربت گل کی بیوی ٓکیسے بن سکتی ہے؟
میر کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ افغانستان میں جہاد کا آغاز ہوا اور جس گانؤ میں مریضوں کے لیے کبھی وقت پر گاڑی میسر نہ ہوتی تھی وہاں روزگاڑیوں پر سوار سفید عمامے باندھے لوگ گلی گلی جا کر جنگی ترانے بجانے لگے۔ نوجوانوں کو جہاد کے لیے نکل پڑنے کی ترغیب دی گئی۔ یہ بھی مال کمانے کا ذریعہ تھا۔ نوجوانوں کو لے جا کر جنگ میں مصروف ٹولوں کے ہاتھ بیچ دیا جاتا تھا۔ بعد میں بھرتی ہونے والے نوجوانوں کی لاشیں آنے لگیں۔ مولوی عبدالقدوس، جس کا خاندان پہلے گانؤ والوں کی خیرات پر پلتا تھا، بڑی کالی گاڑی میں وارد ہوا اور حکم دیا کہ عورتیں پردہ کریں۔ مولوی کے ساتھ مسلح افراد بھی تھے۔ اس نے بڑے رقبے پر مدرسہ تعمیر کیا۔ عورتیں جو پہلے مردوں کے شانہ بشانہ گھر کے اندر اور باہر کام کرتی تھیں گھروں میں محصور ہو کر رہ گئیں یا برقعے پہننے لگیں۔
یہ انتشار زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ ریٹائرڈ صوبے دار عبدالرشید کی بیٹی رفعت نے گانؤ میں لڑکیوں کے لیے سکول کا آغاز کیا اور بیٹے وسیم خاں نے اخباروں میں علاقے میں بڑھتی ہوئی قدامت پرستی کو نشانے پر رکھ لیا۔ آخر وسیم خاں کے مضامین کی وجہ سے فوج نے مولوی عبدالقدوس اور اس کے چیلے چانٹوں کے خلاف کارروائی کی اور سب کو پکڑ کر لے گئی۔
بعد میں میر کی ملاقات وسیم خاں سے ہوئی۔ وسیم نے اسے سو سو روپیے کے چند نوٹ دینے چاہے۔ میر نے نوٹ لینے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ بھی پڑھ لکھ کر وسیم خاں جیسا بننا چاہتا ہے تاکہ عبدالقدوس جیسے فتنہ پردازوں اور موقع پرستوں کا راستہ روک سکے۔ میر کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ جاہلانہ رسم و رواج سے تعلیم یافتہ افراد ہی چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔ ناول میں اور بھی بہت کچھ ہے اور خاتمہ امید پر ہوتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ایسے رسم و رواج کا، جو مردوں نے اپنی بالادستی کے لیے گھڑے ہیں اور جن سے غریب کو غریب اور امیر کو امیر رکھنا مقصود ہے، قلع قمع تعلیم کو فروغ دے کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ شستہ نثر میں، گھر کے بھیدی، عارف خٹک نے اچھا ناول قلم بند کیا ہے اور رسم و رواج کی بے معنویت کو اجاگر کر دیا ہے جن کے سبب پالا میں طرح طرح کی ناہمواریاں اور خرابیاں راہ پا گئی ہیں۔
تاہم آخر میں اس طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ تعلیم، خواہ اعلیٰ تعلیم ہی کیوں نہ ہو، اگر فرد کو حق اور ناحق کے درمیان فرق کرنا نہ سکھائے اور ہر صورت میں حق کی حمایت پر نہ اکسائے، تو ایسی تعلیم سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ لازم ہے کہ تعلیم کا رشتہ اخلاقی اقدار سے جڑا رہے۔ تعلیم کے عام ہونے سے تمام استحصالی سیاست دان اور وڈیرے اور جاگیردار اسی لیے خائف ہیں کہ اگر لوگ پڑھ لکھ جائیں گے تو انھیں جھانسا دینا اور کمین بنائے رکھنا شاید ممکن نہ رہے۔
یہ پالا ہے از عارف خٹک
ناشر: سنگی پبلشنگ ہاؤس، ہری پور
صفحات:204؛ ایک ہزار روپیے