غزل

یہ تحریر 37 مرتبہ دیکھی گئی

میں دن کی روشنی ہوں مجھے رد کرے گا کیا
خوشبو نے پھیلنا ہے اسے روک لے گا کیا

یہ کس کا راستہ ہے یہ کس کی ہے جستجو
ہم لوگ تھک گئے تو زمانہ کہے گا کیا

اے روشنی کے روپ مجھے سائے کھا گئے
اے زندگی کی دھوپ یونہی اب چلے گا کیا

جو جس قدر غنی ہے اسی طور فیض یاب
جو بانٹتا ہے رزق اسے اور دے گا کیا

میں کم نصیب اس کی طرف دیکھ نہ سکا
اے بخت مجھ کو پھر نہیں موقع ملے گا کیا

کیا شکر کر سکے گا کوئی دل نیاز مند
جو دل نہ کر سکے تو زباں سے کرے گا کیا

اے موسمِ بہار مری سمت بھی نظر
اے کاروانِ حسن کوئی پل رکے گا کیا

کچھ لوگ اپنے آپ سے بھی بدگمان ہیں
یہ روگ ان کی زندگی کو راہ دے گا کیا

ہم جتنا سوچتے ہیں الجھتے ہیں اس قدر
یہ سوچنا سمجھنا کہیں پر تھمے گا کیاپ