ہم کسی خواب کی تعبیر ہوا کرتے ہیں
منہدم کرتے ہو ، تعمیر ہوا کرتے ہیں
بات بنتی ہے کہانی میں ہمارے دم سے
عشق کے باب میں تحریر ہوا کرتے ہیں
جی! بھروسہ ہمیں ہاتھوں کی لکیروں پہ نہیں
خود بنائی ہوئی تقدیر ہوا کرتے ہیں
یہ جو اک لفظ محبت ہے لغت میں لکھا
ہم اسی لفظ کی تفسیر ہوا کرتے ہیں
ہم کہ موسم بھی ہیں دلکش سا کوئی منظر بھی
ہر نظر میں ہمی تصویر ہوا کرتے ہیں
ہم ہمہ دان ہیں ہم کو نہ کم کم لینا
ہم جہاں ساز جہانگیر ہوا کرتے ہیں
جس نے دی ہے ہمیں یہ جراتِ اظہارِ ہنر
ہم اسی درد کی تاثیر ہوا کرتے ہیں
غزل
یہ تحریر 893 مرتبہ دیکھی گئی