نکل کے چاند ستاروں کے درمیان سے ہم
نظر زمین سے آتے ہیں آسمان سے ہم
ستارا اب بھی چمکتا ہے رہنمائی کا
بچھڑ گئے ہیں مگر نقشِ کاروان سے ہم
گزارہ اپنایہاں مشکلوں سےہوتا ہے
زمانہ تنگ ہے ہم سے تو دو جہان سے ہم
اب اپنے ہاتھ سے اپنا جہاں بنائیں گے
گزر کے آ گئے قسمت کے امتحان سے ہم
بجھا ہوا کہیں اندر سے ہے ہمارا دل
دوا اداسی کی کھا کر ہیں شادمان سے ہم
مراد بھی تھی وفا بھی وہاں چراغ بھی تھا
اٹھا کے لائے نہیں عشق کی دکان سے ہم
تھے مشتِ خاک ہم اپنے وجود سے پہلے
تبھی تو اُنسیت رکھتے ہیں خاکدان سے ہم
غزل
یہ تحریر 1595 مرتبہ دیکھی گئی