نیند آنکھوں میں نہیں خواب بڑے ہوتے ہیں
دن نکلتے ہی مرے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں
کھولوں میں جب کبھی اوراقِ گزشتہ کی کتاب
لوگ یادوں میں نگینے سے جڑے ہوتے ہیں
روز تکیے کے تلے یاد تری رکھتی ہوں
روز تکیے کے تلے اشک پڑے ہوتے ہیں
عزم ہوتا ہے جونہی منزلیں پا لینے کا
فاصلہ رہتا نہیں کوس کڑے ہوتے ہیں
واپسی آنکھوں میں کاجل مرا پھیلاتی ہے
اور پاؤں تری چوکھٹ پہ گڑے ہوتے ہیں
تو سمجھتا ہے کہ مل جاتے ہیں راہوں میں یونہی
ہم ترے واسطے قسمت سے لڑے ہوتے ہیں
غزل
یہ تحریر 1007 مرتبہ دیکھی گئی