ہر شہر کے بیچ سے
ایک دریا گزرتا ہے
جیسے
جسم کے بیچ سے شہ رگ
اطراف میں رہنے والوں کی
زندگی ہوتا ہے یہ دریا
وہ نہیں بھولتے
اس کے کنارے ہونے والی محبت
اور اُگنے والی جھاڑیاں
پھول اورکہانیاں
کنارے پر کیچڑ میں لتھڑے کھیلتے بچے
پانیوں پر بہتی کشتیاں
اور لہروں پر ڈولتی یادیں
ماؤں کی مدھم مدھم لوریاں
سرِ شام لہراۓ جانے والے آنچل
اورپسینے میں ڈوبے سرد بوسے
… ہجرت کرنے والوں کے دکھ
سب سے بڑے ہوتے ہیں
ان میں سما جاتی ہیں صدیاں
میں اپنے دکھ میں نہیں
اپنے پُرکھوں کے دکھ میں جیتی ہوں
تب سے
جب سے ان کی آنکھوں میں
جمنا کا کنارا رکا دیکھا ہے
جس میں ایک ناؤ بہتی ہے
اس ناؤ میں وہ سارے رنگ ہیں
جن کے چھن جانے سے
ان کی آنکھیں خالی ہو چکی ہیں
ان کے خواب
میری آنکھوں سے جھانکتے ہیں .
اور پھر دور کہیں
جمنا کا کنارا ٹوٹ جاتا ہے !