دادی ماں کے لیے

یہ تحریر 43 مرتبہ دیکھی گئی

مزار پر پھول رکھ دیے ہیں
ہم اپنے تہوار کے دنوں میں
گئے ہوؤں کی تلاش میں تھے
سو دیکھتے ہیں
کہ گھیکوار اگ رہا ہے قبروں کے چار جانب
سفید کتبوں پہ کیکروں کی نحیف شاخیں جھکی ہوئی ہیں
گھلی ہوئی ہے فسردہ مہکار سوکھے پھولوں کی خامشی میں
(وہ لوگ کچھ بولتے نہیں ہیں جو گھر میں چہکار کے ذخیرے کے پاسباں تھے)
غروب ہے دل کی اور سورج کی روشنی کا
خموش سائے بڑھے چلے آ رہے ہیں
اس رات کی طرف جو کسی بھی ساعت میں گھیر لے گی
تمام آنکھوں کی خیرگی کو
سلام کرتے ہیں تیرگی کو
جو چھا رہی ہے
چھپا رہی ہے ہمیں ہماری تعفن انگیز رائیگانی کے آئینوں سے
جہاں بھی جائیں ہمارے پیچھے ہے یہ سلگتی ہوئی اگر بتیوں کی خوشبو جو سانس میں زہر گھولتی ہے
نہ کوئی امید جس کے بل پر بڑھے چلیں ہم
نہ حوصلہ ہے کہ رک سکیں ہم
سو کیا کریں ہم۔۔۔؟

ابھی تو جاتے ہیں
ان پرانے گھروں سے جن میں طویل چپ ہے
پلٹ کے آئیں گے جب پناہیں نہیں رہیں گی
عدن کے چو گرد آگ کا پھیر بجھ چکے گا
ہم آپ اپنے مقابل آنے
خود اپنا اغلاط نامہ پڑھنے کے اہل ہونگے
تو لوٹ آئیں گے ان ہی تاریک بستیوں میں
ابھی تو جاتے ہیں دور۔۔۔ لمبا سفر پڑا ہے
ہماری شہروں سے واپسی تک
ہمارے اجداد بے نشانی سے بچ گئے تو
ہم اپنے شجرے کو پھر لکھیں گے۔۔۔