غزل

یہ تحریر 1160 مرتبہ دیکھی گئی

حیرتوں کا باب مجھ پر منکشف ہونے کو ہے
ہونے کی تکرار میں کچھ مختلف ہونے کو ہے
اپنے دل سے لو لگائی خود میں خود کو ضم کیا
اب مرا بھی اک زمانہ معترف ہونے کو ہے
کیا کرے گا رہنمائی کا ستارہ دشت میں
جب سفر میں راستہ ہی مُنحرف ہونے کو ہے
ہر محبت اب بھلائی جائے گی اس کے لئے
جس محبت کے لئے دل مُعتکِف ہونے کو ہے
اب سمجھ میں آ رہی ہے یہ حیات و کائنات
جذب کا امکان مجھ میں مُتَّصِف ہونے کو ہے
یا الہیٰ یا الہیٰ یا الہیٰ ۔۔۔ التجا
نور چمکا ، ہر بلا اب منعطف ہونے کو ہے