غزل
اشفاق عامر
آنکھ کا نور بھی کھو جائے ستارہ نہ ملے
بحر ظلمات میں بھٹکیں تو کنارہ نہ ملے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جائیں اسے شہر بہ شہر
جس نے چھینا ہے سکوں اپنا دوبارہ نہ ملے
روز ہی خواب میں آواز سنیں اس کی ہم
خواب سے اٹھ کے جو دیکھیں تو نظارہ نہ ملے
بیعت درد کرے شہر یہ سارا اپنی
مڑ کے دیکھیں تو کوئ شخص ہمارا نہ ملے
کیسے لے لیتے زر دہر کبھی اپنے لیے
اپنی ہی سانس پہ جب ہم کو اجارہ نہ ملے
کون سے دشت میں جائیں کہ ملے ہم کو پناہ
دل کی دیوار کا جب ہم کو سہارا نہ ملے