آنکھوں سے اک خواب گزر کر جیسے دور بکھر جاتا ہے
تیرے آنے کا موسم بھی کتنا جلد گزر جاتا ہے
ایک صدا آبادی کی اور دوسری اک ویرانے کی تھی
جیسے کوئی جی اٹھتا ہے جیسے کوئی مر جاتا ہے
ہم تو دیکھتے رہ جاتے ہیں بس ویرانی دیواروں کی
ان کو چھو کر اچھا موسم جانے کس کے گھر جاتا ہے
تیز ہوائیں صحراؤں میں ہی خاک اڑاتی رہتی ہیں
کوئی شہر میں اپنے اندر کی وحشت سے ڈر جاتا ہے
اپنے اینڈرائڈ میں تیری تصویروں کی اک فائل ہے
اس کو دیکھتے دیکھتے یونہی اپنا وقت گزر جاتاہے
اک سایہ تو رہ جاتا ہے دریا کے ایک کنارے پر
دوسرا اپنے خواب کی کشتی لے کر پار اتر جاتا ہے