غزل

یہ تحریر 290 مرتبہ دیکھی گئی

آنکھوں سے اک خواب گزر کر جیسے دور بکھر جاتا ہے
تیرے آنے کا موسم بھی کتنا جلد گزر جاتا ہے

ایک صدا آبادی کی اور دوسری اک ویرانے کی تھی
جیسے کوئی جی اٹھتا ہے جیسے کوئی مر جاتا ہے

ہم تو دیکھتے رہ جاتے ہیں بس ویرانی دیواروں کی
ان کو چھو کر اچھا موسم جانے کس کے گھر جاتا ہے

تیز ہوائیں صحراؤں میں ہی خاک اڑاتی رہتی ہیں
کوئی شہر میں اپنے اندر کی وحشت سے ڈر جاتا ہے

اپنے اینڈرائڈ میں تیری تصویروں کی اک فائل ہے
اس کو دیکھتے دیکھتے یونہی اپنا وقت گزر جاتاہے

اک سایہ تو رہ جاتا ہے دریا کے ایک کنارے پر
دوسرا اپنے خواب کی کشتی لے کر پار اتر جاتا ہے