غزل

یہ تحریر 231 مرتبہ دیکھی گئی

کسے خبر کہ بگڑنا ہے یا سنورنا ہے
کٹھن سہی ہمیں اس راہ سے گزرنا ہے

تمھاری یاد کی خوشبو ہے چار سو اپنے
ہمیں تو یوں بھی اسی باغ میں ٹھہرنا ہے

خود اپنے دل کو کریدو یہیں ملے گا وہ
پراۓشہر میں کس کو تلاش کرنا ہے

اسی امید پہ ہم بھی رواں ہیں دنیا بھی
یہ گھاؤ وقت نے آخر کبھی تو بھرنا ہے

گلی گلی میں بپھرتی ہوا کی وحشت سے
گھروں میں جلتے چراغوں نے روز ڈرنا ہے