غزل

یہ تحریر 167 مرتبہ دیکھی گئی

کیسے جاتے غم سے آگے ہم اور تم
سنگ تھے چشم_نم سے آگے ہم اور تم

کچھ بھی دیکھ نہیں پائیں گےدنیا میں
اپنے اکیلے دم سے آگے ہم اور تم

خواب کے روزن میں تعبیرخواب نہ تھی اب ہیں بامالم سے آگے ہم اور تم

سودوزیاں کی بات پرانی لگتی ہے
اب ہیں بیش و کم سے آگے ہم اور تم

دیکھ رہے ہیں اپنے دشت کی وحشت میں
ایک غزال کے رم سے آگے ہم اور تم