غزل

یہ تحریر 160 مرتبہ دیکھی گئی

خوشی کے رنگ تو اس پار کیوں سمجھتا ہے
یہ در ہے سامنے دیوار کیوں سمجھتا ہے

تری صدا نہ سنی ایک نے بھی بستی میں
تو سونے والوں کو بیدار کیوں سمجھتا ہے

ہمیشہ خواب ہی کام آۓ جینے والوں کے
تو اپنے خواب کو بیکار کیوں سمجھتا ہے

ہزار موڑ ہیں اس میں ہزار ڈھلوانیں
تو رستہ زیست کا ہموار کیوں سمجھتا ہے

ذرا سی دیر کی چھاؤں ہے یہ محبت بھی
تو اپنے دشت کو گلزار کیوں سمجھتا ہے

مجھے تو ہوش نہیں اپنے آج اور کل کا
مجھے تو صاحب -اسرار کیوں سمجھتا ہے