خوشی کے رنگ تو اس پار کیوں سمجھتا ہے
یہ در ہے سامنے دیوار کیوں سمجھتا ہے
تری صدا نہ سنی ایک نے بھی بستی میں
تو سونے والوں کو بیدار کیوں سمجھتا ہے
ہمیشہ خواب ہی کام آۓ جینے والوں کے
تو اپنے خواب کو بیکار کیوں سمجھتا ہے
ہزار موڑ ہیں اس میں ہزار ڈھلوانیں
تو رستہ زیست کا ہموار کیوں سمجھتا ہے
ذرا سی دیر کی چھاؤں ہے یہ محبت بھی
تو اپنے دشت کو گلزار کیوں سمجھتا ہے
مجھے تو ہوش نہیں اپنے آج اور کل کا
مجھے تو صاحب -اسرار کیوں سمجھتا ہے