غزل

یہ تحریر 223 مرتبہ دیکھی گئی

پھول بھی تھا ہاتھ میں پتھر بھی تھا
اک سفر اندر تھا اک باہر بھی تھا

سلسلہ دریا کا تھا دونوں طرف
خواب کی لہروں میں میرا گھر بھی تھا

رنگ بہتے تھے کسی کی یاد کے
ایک خوشبو کا سفر اندر بھی تھا

دل کی بھٹی میں دہکتی آگ تھی
لفظ پگھلانے کو آہن گر بھی تھا

چاۓ بھی اچھی تھی اور سب دوست بھی
سامنے اک دور کا منظر بھی تھا