پھول بھی تھا ہاتھ میں پتھر بھی تھا
اک سفر اندر تھا اک باہر بھی تھا
سلسلہ دریا کا تھا دونوں طرف
خواب کی لہروں میں میرا گھر بھی تھا
رنگ بہتے تھے کسی کی یاد کے
ایک خوشبو کا سفر اندر بھی تھا
دل کی بھٹی میں دہکتی آگ تھی
لفظ پگھلانے کو آہن گر بھی تھا
چاۓ بھی اچھی تھی اور سب دوست بھی
سامنے اک دور کا منظر بھی تھا