آنکھوں میں ہجوم ہے تو کیا ہے سیلاب_ نجوم ہے تو کیا ہے بے علم ...

خوشی کے رنگ تو اس پار کیوں سمجھتا ہے یہ در ہے سامنے دیوار کیوں ...

کیسے جاتے غم سے آگے ہم اور تم سنگ تھے چشم_نم سے آگے ہم اور ...

کسے خبر کہ بگڑنا ہے یا سنورنا ہے کٹھن سہی ہمیں اس راہ سے گزرنا ...

آنکھوں سے اک خواب گزر کر جیسے دور بکھر جاتا ہے تیرے آنے کا موسم ...

پھول بھی تھا ہاتھ میں پتھر بھی تھا اک سفر اندر تھا اک باہر بھی ...

وہی سیر باغ دنیا وہی تیری خوش لباسی وہی آگ زندگی کی وہی میری بد ...

خیال سے چلے گئے گمان سے چلے گئے وہ خواب جیسے لوگ داستان سے چلے ...

ہمارے خواب میں اک آستاں بنایا گیا کسی کو اس میں بہت مہرباں بنایا گیا ...

خواب کی لہروں نے دیکھا تھا کنارا شوق خود ہی بن گیا تھا اک ستارا ...