غزل

یہ تحریر 2187 مرتبہ دیکھی گئی

نقش دل پر حسرت ناکام ہو جائے تو کیا

اپنی ناکامی بہت بدنام ہو جائے تو کیا

ویسے پینے کی پریشانی کبھی پالی نہیں

اس کی آنکھوں سے کبھی اک جام ہو جائے تو کیا

ایک بوسے میں بھلا اتنا تردد الاماں

زندگی میں بس یہی انعام ہوجائے تو کیا

رنگ کچے ہوں تو بڑھتی ہے کشش کچھ اور بھی

پختگی اس فن میں تھوڑی خام ہو جائے تو کیا

ہے ابھی وہ زلف کچھ لمحے یہاں سایہ فگن

اس کے ساۓ میں زرا آرام ہو جائے تو کیا

اس کی یادوں کا سفر ہے اس میں لمحوں کا شمار؟

صبح سے بیٹھے ہوئے ہیں شام ہو جائے تو کیا

ہم نے کی تھی صاف سیدھی بات اس کے روبرو

لفظ خود ہی مائل ابہام ہو جائے تو کیا

دل اسیری کے لیے تڑپے تو اس کا کیا علاج؟

خود پرندہ بڑھ کے زیر دام ہو جائے تو کیا

چہچہاتے لوگ ہوں جیسے پرندے پیڑ پر

یہ قرینہ زندگی میں عام ہوجائے تو کیا