نقش دل پر حسرت ناکام ہو جائے تو کیا
اپنی ناکامی بہت بدنام ہو جائے تو کیا
ویسے پینے کی پریشانی کبھی پالی نہیں
اس کی آنکھوں سے کبھی اک جام ہو جائے تو کیا
ایک بوسے میں بھلا اتنا تردد الاماں
زندگی میں بس یہی انعام ہوجائے تو کیا
رنگ کچے ہوں تو بڑھتی ہے کشش کچھ اور بھی
پختگی اس فن میں تھوڑی خام ہو جائے تو کیا
ہے ابھی وہ زلف کچھ لمحے یہاں سایہ فگن
اس کے ساۓ میں زرا آرام ہو جائے تو کیا
اس کی یادوں کا سفر ہے اس میں لمحوں کا شمار؟
صبح سے بیٹھے ہوئے ہیں شام ہو جائے تو کیا
ہم نے کی تھی صاف سیدھی بات اس کے روبرو
لفظ خود ہی مائل ابہام ہو جائے تو کیا
دل اسیری کے لیے تڑپے تو اس کا کیا علاج؟
خود پرندہ بڑھ کے زیر دام ہو جائے تو کیا
چہچہاتے لوگ ہوں جیسے پرندے پیڑ پر
یہ قرینہ زندگی میں عام ہوجائے تو کیا