اشفاق عامر
ملیں گے اور سر صحرا ملیں گے
ہماری آنکھ میں دریا ملیں گے
ہم اس رستے پہ بیٹھے ہیں کہ اک دن
کبھی بچھڑے ہوۓ بھی آ ملیں گے
گلی کی بھیڑ میں کیا بات کرتے
کبھی موقعہ ملا تنہا ملیں گے
خرابہ شام کو آباد ہو گا
یہاں آکر سبھی رسوا ملیں گے
نہیں کچھ امتیاز اس کی گلی میں
کئ ناداں کئ دانا ملیں گے
اندھیری رات میں یہ چلنے والے
کبھی تو روشنی سے جا ملیں گے
جو خود سے مل نہیں سکتے ہیں عامر
اکیلے میں کسی سے کیا ملیں گے