غزل

یہ تحریر 208 مرتبہ دیکھی گئی

خیال سے چلے گئے گمان سے چلے گئے
وہ خواب جیسے لوگ داستان سے چلے گئے

پرانی وضع داریوں کے جو امین تھے کبھی
چلے گئے وہ لوگ خاندان سے چلے گئے

چلے گئے ہیں سب قدیم پھول باغ چھوڑ کر
پرانے سب محاورے زبان سے چلے گئے

زمیں پہ مہربان موسموں کا کچھ پتا نہیں
وہ بادلوں کے ساۓ آسمان سے چلے گئے

کبھی تو ان کے نام پر بھی جام زندگی اٹھا
جو بزم ہاۓ و ہو کے درمیان سے چلے گئے