خیال سے چلے گئے گمان سے چلے گئے
وہ خواب جیسے لوگ داستان سے چلے گئے
پرانی وضع داریوں کے جو امین تھے کبھی
چلے گئے وہ لوگ خاندان سے چلے گئے
چلے گئے ہیں سب قدیم پھول باغ چھوڑ کر
پرانے سب محاورے زبان سے چلے گئے
زمیں پہ مہربان موسموں کا کچھ پتا نہیں
وہ بادلوں کے ساۓ آسمان سے چلے گئے
کبھی تو ان کے نام پر بھی جام زندگی اٹھا
جو بزم ہاۓ و ہو کے درمیان سے چلے گئے