میں اس روز بہت رویا تھا

یہ تحریر 50 مرتبہ دیکھی گئی

میں اس روز بہت رویا تھا
شمیم حنفی کی یاد میں
آج آنکھ بہت جلد کھل گئی تھی اور نیند بھی دیر سے آئ۔ صبح دوسری صبحوں سے زیادہ روشن تھی۔مئی کی دھوپ یوں بھی بہت چمکتی ہے اور آج کا دن کبھی تیزی تو کبھی سست رفتاری کے ساتھ شام کے سناٹے کی طرف بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔میرے کمرے کا ایک کونا شمیم حنفی کی تمام کتابوں کے ساتھ یوں بھی روشن ہے۔ایک کونا وہ بھی ہے جو یادوں سے روشن ہے۔ اس میں فکر و احساس کی سطح پر کئ دنیائیں آباد ہیں۔جب میں یونیورسٹی کے لۓ گھر سے نکلتا ہوں تو ایک دنیا میرے ساتھ ہو جاتی ہے اور اس میں شعور کا کوئ دخل نہیں ہوتا۔کبھی کبھی کئ دنیائیں آتی ہوئی محسوس ہوتی ھیں اور پھر یوں ہوتا ہے کہ جامعہ پہنچتے پہنچتے یہ مختلف سمتوں کی طرف روانہ ہو جاتی ہیں لیکن ایک دنیا ہے جو ہمیشہ میرے ساتھ رہتی ہے۔نگاہ میں کتنے مناظر ابھرتے ہیں بیشک تحریر کی اپنی اہمیت ہے مگر شخصیت کا موجود ہونا اتنی بڑی حقیقت ہے کہ بعض اوقات تحریر بھی شخصیت ہی کا حوالہ دیتی ہے۔شمیم حنفی کے رخصت ہونے کے بعد دلی فکر و احساس کی سطح پر کتنی ہلکی ہو گئ ہے۔شمیم حنفی صاحب کو منیر نیازی کا یہ شعر بہت پسند تھا
آنکھیں کھلیں تو دھوپ چمکتی ہوئی ملی
میرے طلوع صبح کے ارماں کہاں گئے
شعرکا تاریخی سیاق آزادی اور ملک کی تقسیم ہو یا نہ ہو لیکن اس کا خیال تو آتا ہے۔صبح کی چمکتی ہوئی دھوپ چڑھتے ہوئے دن کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ دن کا رنگ دھوپ سے کتنا سیاہ ہونے والا ہے۔دھوپ کی تمازت نگاہ میں جو دھندلاہٹ پیدا کرتی ہے اس کے بارے میں ان سے گفتگو کا موقع نہیں مل سکا۔دن اور رات صبح اور شام شمیم منفی صاحب کے پسندیدہ موضوعات تھے ۔انہیں موضوعات سے کہیں زیادہ وقت کا نام دینا مناسب ہوگا۔ شمیم حنفی صاحب کے لیے وقت مستقل طور پر گفتگو کا مرکز بن گیا تھا۔ایسا نہیں ہے کہ اچانک ان کی تحریر اور تقریر میں وقت کے تصور نے باریابی حاصل کر لی ہو لیکن یہ سچ ہے کہ ان کی زندگی کے آخری چند برسوں کو وقت اور تاریخ نے ہر طرف سے گھیر لیا تھا۔ان کی تحریر اور تقریر میں دو حوالوں سے بطور خاص وقت درآیا تھا۔انتظار حسین کا فکشن اور ناصر کاظمی کی شاعری۔مجھے اس نتیجے پر پہنچنے میں تھوڑا وقت لگا۔اردو ادب کے ان دو حوالوں کے ساتھ وہ حوالے بھی اہم ہیں جن کا رخ مغربی مفکرین کی طرف ہے۔اس سلسلے میں کئی نام ہیں جو ان کی تحریروں میں موجود ہیں۔یہ موجودگی بتاتی ہے کہ وقت کے بارے میں ان کے یہاں کسی طرح کا تعصب نہیں تھا۔وقت خود ہی تمام قسم کے تعصبات کو ختم کر دیتا ہے لہذا وقت کا کوئی نہ کچھ بگاڑ سکتا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ وقت کے بارے میں عام طور پر جو تحریر اردو میں موجود ہے اسے پڑھ کر تنگی کا احساس ہوتا ہے۔اول تو اس موضوع پر کم لکھا گیا اور کم غور کیا گیا۔غور کرنے والے زیادہ تر تخلیق کار ہیں۔سچ یہ ہے کہ غور و فکر کا عمل ہجرت اور تقسیم کے بعد باضابطہ شروع ہوا۔یہ اور بات ہے کہ ہماری ادبی روایت میں وقت تخلیقی سطح پر موجود تھا۔شمیم حنفی نے ایک موقع پر کہا تھا کہ تقسیم نے ہمیں انتظار حسین کا فکشن دیا اور ناصر کاظمی کی شاعری۔یہ دو بڑی آوازیں تھیں جن سے زمانہ نہ صرف واقف تھا بلکہ اس بات پر متفق بھی تھا کہ ہجرت اور تقسیم کی آگ جتنی بڑی تھی ناصر کاظمی کی شاعری اور انتظار حسین کے فکشن میں اپنے طور پر اسے محفوظ کرنے کی کوشش کی۔لیکن شمیم حنفی نے یہ بھی کہا تھا کہ آگ بڑی تھی اور تخلیقی شخصیت چھوٹی۔یہ بات اردو ادب کے مجموعی سیاق کی روشنی میں کہی گئی تھی ورنہ تو انتظار حسین اور ناصر کاظمی ان کے لیے کئی اعتبار سے پناہ گاہ کے طور پر تھے۔بے پناہی کا یہ احساس اور بڑھ جاتا تھا جب وہ تاریخ اور تاریخ سے وابستہ یادداشت کو اس سطح پہ دیکھنا چاہتے تھے جو انتظار حسین کے فکشن اور ناصر کاظمی کی شاعری میں موجود ہے۔ان کا سارا مسئلہ اس سطح کا تھا جو اجتماعی زندگی سے سروکار رکھنے کے باوجود اپنی لازمانیت پر اصرار کرتا۔انتظار حسین نے اپنے خط میں شمیم حنفی کو لکھا تھا۔
٫٫گیت ختم ہوئے تو تمہاری گفتگو شروع ہوئی۔ناصر کے بارے میں بہت اچھی لگی۔پہلے بھی شاید مجھے کبھی خیال آیا تھا اور آج خاص طور پر احساس ہوا اور افسوس کے ناصر تم سے ملے بغیر دنیا سے کیوں گزر گیا۔اصل آدمی جس سے تمہیں ملنا چاہیے وہ تھا۔اس تقریر کی نقل مجھے بھجوانا۔؛؛
اتفاق سے اس خط میں کوئی تاریخ درج نہیں۔یہ بھی ایک اشارہ ہے تاریخ سے اس گریز کا جو تاریخ کو سیال بنا دیتا ہے۔ویسے عام طور پر انتظار حسین نے شمیم حنفی کو جو خطوط لکھے ہیں ان میں تاریخ کا اندراج ہے۔شمیم حنفی کے تنقیدی ذہن تک پہنچنے کے کئی حوالے ہیں لیکن تاریخ اور یادداشت یہ دو ایسے حوالے ہیں جن کے بغیر انہیں بہتر طور پر سمجھا نہیں جا سکتا۔انتظار حسین اور قرۃ العین حیدر دونوں پر جو ان کے مضامین ہیں وہ تاریخ سے تحریک پا کر لکھے گئے ہیں۔اس بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان تخلیق کاروں کی تخلیقات نے انہیں ایک ایسے تنقیدی مقدمے کو قائم کرنے کا حوصلہ بخشا جس میں تاریخ اور یادداشت کا عمل دخل ہو۔شمیم حنفی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے یہاں مقدمہ بنانے یا قائم کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی ۔یہ بات اس لیے بھی کہی گئی کہ ان کے معاصرین کے ہاں کلیہ سازی اور مقدمہ قائم کرنے کہ جو نمونے ملتے ہیں وہ اور طرح کے ہیں۔شمیم حنفی نے اصطلاحوں کے بغیر مقدمہ قائم کیا اور اس کی تشکیل میں تاریخ اور یادداشت کو رہنما اصول کی طرح استعمال کیا۔اس عمل میں جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے وہ متن ہے جس کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ متن سے باہر کچھ نہیں ہے۔شمیم منفی کا مضمون ٫٫ناصر کاظمی اور ان کا یاد نگر؛؛شمیم حنفی کے اس ادبی اور تنقیدی مطالعہ بنیادی حوالہ ہے جسے میں نے تاریخ اور تاریخ کی یادداشت کا نام دیا ہے۔یہ دونوں الفاظ ان کے مطالعات کی روشنی میں کس قدر انسانی اور اخلاقی معلوم ہوتے ہیں ۔شمیم حنفی اس مضمون کو اگر نہ لکھتے تو ادبی معاشرہ ٫٫پہلی بارش؛؛ کی برکتوں سے محروم رہ جاتا ہے۔وارث علوی نے مسدس حالی کے بارے میں لکھا تھا کہ اگر وہ یہ نہ لکھتے تو اپنے ساتھ بڑی ناانصافی کرتے۔یہی بات ناصر کاظمی اور ان کا یاد نگر کے تعلق سے کہی جا سکتی ہے۔جو نا انصافیاں ان کی نگاہ میں تنقید نے کی ہیں وہ کیا کم ہیں ۔یہاں تو بات صرف ایک مضمون کی ہے پھر بھی یہ مضمون شمیم حنفی کے ادبی سفر کا بڑی حد تک ایک اہم حوالہ ہے۔ ایک عمر کی علمی اور ادبی ریاضت تاریخ اور یادداشت کے حوالے سے اس مضمون میں جلوہ گر ہے ۔یہاں ان تحریروں اور کتابوں کے حوالے بھی موجود ہیں جن سے انہیں تحریک ملی۔ان تمام حوالوں میں یادداشت کا کوئی نہ کوئی عنصر موجود ہے۔ناصر کاظمی کی پہلی بارش کا ذکر تو آتا ہے لیکن اس کے متن میں داخل ہونے کے جو اصول و آداب ہیں وہ اور طرح کے ہیں۔استعارہ سازی فکری دبازت اور اس طرح کے دوسرے مسائل اہم ضرور ہیں مگر یہ ضروری تو نہیں کہ ہم ہر جگہ اور ہمیشہ انہی کی گردان کرتے رہیں۔گو کہ پہلی بارش کی شاعری میں استعارہ سازی اور فکری دبازت کی مثالیں موجود ہیں۔شمیم حنفی لکھتے ہیں۔
“تقسیم کی آگ نے ان کے ماضی اور حال کے درمیان ایک لکیر بے شک کھینچ دی تھی۔لیکن پاکستان کے ثقافتی ماحول میں ناصر کاظمی کے واسطے سے جس شاعرانہ حسیت کی تشکیل ہوئی اس کا ایک اپنا شناس نامہ تھا۔اس شناس نامے کا مرکزی نقطہ ناصر کے اپنے ماضی اور حال کے دوراہے پر ایک ساتھ جمی ہوئی،حیران اور ششدر ایک ساتھ اپنی گزشتہ اور آئندہ کا احاطہ کرتی ہوئی یادیں تھیں۔بے وطنی،ہجرت اور رات کے مختلف النوع استعاروں میں الجھی ہوئی انہیں یادوں،اندیشوں،امکانات اور اندوہ کا احساس جگانے والے تجربوں سے ناصر کاظمی کے شعری مزاج کی تعمیر ہوئی ہے”
ناصر کاظمی کی شاعری کا کینوس یاد سے یاد تک پھیلا ہوا ہے۔یادیں وسعت اور تنگی دونوں کو اپنے ساتھ لاتی ہیں۔شمیم حنفی ناصر کاظمی کی پہلی بارش کی غزلوں کے لیے لینڈ اسکیپ کی ترکیب استعمال کرتے ہیں جو ماضی سے آباد ہے۔وہ بار بار شاعر کے باطن کا ذکر کرتے ہیں اور اس انجانے منظر کا بھی جو رات کے سناٹے میں ابھرتا ہے۔وہ اسے ناصر کاظمی کے شعور کی دنیا کہتے ہیں جو مسلسل آگے کی طرف پھیلتی اور بڑھتی ہے۔وہ لکھتے ہیں۔
٫٫پہلی بارش کی غزلیں حقیقت اور واہمے،ٹھوس پیکروں اور تجریدی تصویروں کی یکجائی کا ایک عجیب و غریب سلسلہ مرتب کرتی ہیں۔؛؛
شمیم حنفی پہلی بارش کو دیکھتے ہوئے اپنے شعور کی دنیا کو اصطلاحوں سے الگ بھی نہیں کرتے۔قاری محسوس کر سکتا ہے کہ ایک ہوشمند قاری ہے جو پہلی بارش میں بھیگتے ہوئے خود کو اس کے حوالے کر دیتا ہے۔متن کو انگلی پکڑ کر چلانا اور متن کی انگلی پکڑ لینا دونوں میں فرق ہے۔شمیم حنفی پہلی بارش کے متن کو کبھی فاصلے سے دیکھتے ہیں اور کبھی بہت نزدیک سے۔یہ فاصلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں وہ محسوس کرتے ہیں کہ کہیں شاعری کا جادو کچھ ایسا چل تو نہیں گیا کہ اس کا تاریخی سیاق نگاہ سے اوجھل ہو جائے۔خود ناصر کاظمی فطرت کو کبھی فاصلے سے دیکھتے ہیں حیرت زدہ ہوتے ہیں اور انہیں محسوس ہوتا ہے کہ فطرت ان پر غالب آ گئی ہے ۔انہوں نے اس عمل کو تخیل کی جست،عنصری سادگی،احساسات کی رنگا رنگی،خود کلامی،اکیلے پن کی دہلیز،انسانی رشتوں کی روداد،ٹھہری ہوئی تصویر،سیال ادبی رنگوں سے جھانکتا ہوا منظر،،اسرار سے بھری ہوئی کتھا،ڈراؤنا خواب،ارضی واقعہ،ما بعد الطبیعاتی زاویے،غیر معمولی تجربے،وجودی تجربے،تہذیب کی جڑیں،وغیرہ کا نام دیا ہے۔اگر ان الفاظ پر غور کریں تو ناصر کاظمی کی پہلی بارش کی شاعری سے شمیم حنفی کی ذہنی قربت کا کچھ سراغ مل سکتا ہے۔شمیم حنفی نے اپنے مضمون ناصر کاظمی اور ان کا یاد نگر میں ان اشعار کو بھی درج کیا ہے۔
آنکھ کھلی تو تجھے نہ پا کر
میں کتنا بے چین ہوا تھا
تجھ بن گھر کتنا سونا تھا
دیواروں سے ڈر لگتا تھا
بھولی نہیں وہ شام جدائی
میں اس روز بہت رویا تھا
تجھ کو جانے کی جلدی تھی
اور میں تجھ کو روک رہا تھا
گلیاں شام سے بجھی بجھی تھیں
چاند بھی جلدی ڈوب گیا تھا
سناٹے میں جیسے کوئی
دور سے آوازیں دیتا تھا
یادوں کی سیڑھی سے ناصر
رات اک سایہ سا اترا تھا

جامعہ کی ایک شام
نئ دھلی
06/05/2024