غزل

یہ تحریر 610 مرتبہ دیکھی گئی

آپ کہتے ہیں تو ہم موجود ہیں
یعنی اپنے راستے مسدود ہیں

کچھ نہیں، افلاک ہیں حدِ نظر
کس قدر پھیلے ہوے محدود ہیں

آتشِ بے انتہا، برباد شد
چوب گل بردار تھے ہم دود ہیں

ہم ترا انعام تھے، شہرِ زیاں
جو سراسر سود تھے بے سود ہیں

گریہء صبح سفر، بے نور کرد
فارسی میں دیر آید زود ہیں