برزخ کے پھُول عرف شیزوفرینیا

یہ تحریر 596 مرتبہ دیکھی گئی

ایک ہاتھ کی تین انگلیاں کٹی ہوئی تھیں
شکل تو بھول چکی ہے
نام یاد ہے
علم دین تھا
علم دین کے چاروں جانب علم دین ہی علم دین تھا
خط لکھتا رہتا تھا
علم دین کے خط ہیں
پتہ پتہ
اور خزاں ہے!

٭
کتنے اچھے دِن تھے
پھُول کھلا کرتے تھے
چاند چڑھا کرتا تھا
سانپ نشہ کرتے تھے
پروائی کا!

٭

دیکھا،
پُل پر دریا چڑھ آیا ہے
مَیں محتاط تھا، پلٹ گیا، اور
دیکھا:
تیرہ چودہ سال کا اک لڑکا ہے،
اپنے آپ میں گُم صُم،
سر کو جھکائے،
اُس جانب کی دائیں سمت سے
اِس جانب کی بائیں سمت چلا آتا ہے۔

پُل پر دریا،
پُل کا جنگلا غائب،
اور مَیں گونگا،
لڑکا خود میں گُم صُم،
مَیں نے سطحِ آب پہ ہاتھوں کو لہراتے دیکھا!

٭

چرچ میں دیکھی لاش کا بھُوت،
دماغ میں دائیں جانب
مادر زاد فرشتہ!
اور سینے میں بائیں جانب
پسلی پسلی سر ٹکراتا،
وحشی اور نابینا،
سگِ گرسنہ!

شہزادی،
تُم کن محلوں کے، کِن کمروں میں، کِن نرسوں سے
کب تک
اپنا آپ چُھپا پاؤ گی؟
یہ ہلڈول یہ ڈائزی پام تمھاری شام ہیں
شام،
جو صبح سویرے اپنا سفر آغاز کیا کرتی ہے!

٭

یوں لگتا ہے،
جیسے سب کچھ ہونے سے پہلے ہی ہو جاتا ہے۔
سچ سچ کہنا،
بستر پر مفلوج سفر کے تیس برس کا سپنا،
کِن نیندوں سے، کب ٹوٹا تھا؟

٭

آؤ
وہ دروازہ کھولیں
جس کے پیچھے ہم ہیں!

٭

کیا وہ مَیں تھی؟
یا وہ، وہ تھا؟
سات برس کی عمر میں مَیں نے،
مُٹھی بھر سورج میں سمٹی،
وحشی شب کی جھلکی،
دیکھی!
کیا وہ مَیں تھی جِس کے زیرِ ناف چھپی تھی
سِسکی،
لذّت کی،
یا
سانپ تھا،

اور پُروائی۔۔۔!
تازہ تازہ
زخم کا نشہ،
(کبھی چکھا ہے؟)
گرم لہو کی خوشبو۔!
سترہ گولیاں نیند کی،
اور بھیڑیا،
لال لال آنکھیں ہیں اس کی،
سُرخ کوئلے جیسی،
دروازے میں کھڑا ہوا تھا،
جب مَیں
چیخی،
آج رات کو۔
ڈاکٹر صاب،
نرسیں

مُجھے چڑیلیں لگتی ہیں اور آپ کے کندھوں
پر کبھی کبھی
کسی سؤر کا چہرہ ہوتا ہے!

٭
تین لڑکیاں،
تین جزیرے،
تین زمانوں میں اِک آدھا روشن تارہ،
آدھے گھر میں رات،
آدمی،
برزخ۔

٭

علم دین خاموش رہا کرتا تھا،
علم دین کے گھر میں
بھوت رہا کرتے تھے،

جنگل،
علم دین کے سر میں،
وہ جنگل میں تنہا،
رستہ
بھُولا ہوا شہزادہ!
٭
ہم برزخ کے شہری،
ہمیں خدا سے بیر نہیں تھا،
سورج اپنا دوست بنا تو رات بھی آئی،،
بنی ٹھنی،
ہونٹوں پہ سُرخی،
آنکھ میں شعلے،
ناف کے نیچے جنت!
ہم نے
نہر میں بہتا شہد بھی چکھا

روشن رکھا
جنت کا سورج بھی
آگ چُرا کر
دوزخ سے۔۔۔۔ ہم
برزخ کے شہری ہیں

٭
سچ کے سائے،
سایوں کا سچ،
علم دین کے کمرے میں جوعلم دین کا گھر تھا،
جس میں دیا نہیں تھا،
دیا جلانے آئے۔
بوسہ۔۔۔
جس کی تپش سے،
لش لش کالا پتھر پگھلا،
بوسہ،
جس نے،

دھڑ دھڑ بہتا دھارا روکا،
لحظہ بَھر کو،
صدیاں،
شوقِ دید میں
پتھر،
بوسہ ریگِ رواں ہے!
ہجر کا حجر اسوَد،
ندیا،
اندھا پانی،
کالی رات سے کالا پانی،
علم دین ہے،
ٹَپ ٹَپ گرتا
تازہ سُرخ لہو ہے،
وقت،
بہے جاتا ہے،
اپنے پُورے زور سے،

ٹھہرا،

مادر زاد فرشتہ،
سَکتہ،
دماغ کے دائیں نصف کرے میں،
بِگ بینگ کی آہٹ۔۔!

٭
وہ ہے۔۔۔۔!
اُس کی گونج ہے، پاگل خانے کے دوزخ میں،
گُونج رہی ہے:
”مَیں ہوں،
اور اسامہ بِن لاڈن اِز گوڈ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
یہ ہے،
برزخ بُھگت چکی ہے،
کہہ دے،
اللہ الصمد!

٭

رات روشنی۔۔۔۔!
رات تہی مہتاب، تہی چراغ ہے،
رات روشنی،
تیز ہوا ہے،
جنگل،
لشکر،
لٹے پٹے شہزادے کا،
شہزادی
اپنے خیمے اندر،
اپنے آپ سے باتیں کرتی،
تنہا،
خواہش،
اپنے آپ کو چیر پھاڑ لینے کی،
سِسکی،
کیا وہ مَیں تھی؟

٭

پُل پر پانی،
تُو ہے،
علم دین اُس پار بھی تُو ہے،
اُس وادی میں،
اُن قبروں کے آس پاس بھی تُو ہے،
گُم صُم!

٭

کرنا کیا ہے؟
ہونا کیا ہے؟
کالا پتھر دریا۔

٭

رات روشنی علم دین کے گھر میں،
علم دین کے خط ہیں،

باہر،
پتہ پتہ،
اندر،
علم دین ہے تنہا،
بابا،
آگ سے وصل منا،
تُجھ پر
جنت کے دروازے بند ہیں،
بوسہ بوسہ
دوزخ ٹھنڈے کر،
پتھر،
ندیابَن !