یہ زندگی کے میلے اور صوت و شبیہہ کا سفر

یہ تحریر 460 مرتبہ دیکھی گئی

معلوم نہیں یہ بات کبھی لکھی ہے یا دماغ میں پڑی بہت سی نانوشتہ یا کہیں دبی ہوئی کچھ ادھ لکھی یاداشتوں میں پڑی ہے کہ کسی واقعے کہانی یا افسانے کی لافانیت کا ایک معیار یہ ہے کہ وہ غیر مصنَفہ لوک کہانیوں کا حصہ بن جائے۔ کچھ ایسی ہی بات لوک روایتوں اور گیتوں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔

خلقت کے اجتماعی لاشعور پر حکمرانی کرتے لوک گیتوں داستانوں اور کہانیوں کی ایک نشانی ان کے اولین لکھاری کی گمنامی یا ایک سے زائد لکھنے والوں کی طرف ان کا انتساب بھی ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ ان چیزوں کی لازوال شہرت کی وجہ محض یہ گمنامی، یا ایک سے زائد آغاز کنندگان کی طرف انکا انتساب ہی ہوتا ہے لیکن ان میں کوئی ایسی شے ضرور ہوتی ہے جو ان میں اور ہر زمانے میں زندہ رہنے والے کلاسیکی ادب اور فن میں اس فرق کیساتھ مشترک ہوتی ہے کلاسیک جہاں اخصص الخواص کے دل و دماغ کو متاثر کرتی ہے وہاں یہ لوگ داستانیں اور گیت عامۃ الناس کے اجتماعی حافظوں میں دلکش یاد بنکر زندہ رہتے اور لوگوں کے دلوں میں خون کے ذرات بن کر دوڑتے ہیں۔ یہی خصوصیت ان چیزوں کو لوک ثقافت کا حصہ بنا کر انہیں عام لوگوں کے اجتماعی لاشعور میں ابدیت کی سی حیاتِ نو بہ نو عطا کرتی رہتی ہے۔ 

اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ کلاسیک فن پاروں اور لوک ثقافتوں کی یادداشتوں پر حکمرانی کرنے والی داستانوں کہانیوں اور گیتوں والا یہ زندہ، موجود مؤثر اور محبوب مقام بر صغیر پاک و ہند کی ماضی قریب کی تاریخ میں کسے ملا ہے تو بلا تأمل عرض کروں گا کہ صرف اور صرف دو مترنم کھنکتی آوازوں اور ایک اجلی متحرک شبیہہ کو۔

عروقِ مشرقِ زندہ و پُرجمال میں خون کے ذرات کی طرح دوڑنے اور خلقت کے اجتماعی لاشعور کا حصہ بن جانے والے لوگ گیتوں کا سا یہ داستانی (لیجنڈری) سمان مان اور مقام بر صغیر پاک و ہند میں بلاشبہ محمد رفیع، لتا منگیشکر اور دلیپ کمار ہی کے حصے میں آیا ہے۔

آج جولائی کا مہینہ گزر گیا تو یاد آیا کہ اسی مہینے میں 40 سال پہلے یہاں کے لوگوں سے رفیع صاحب جدا ہوئے تھے اور چند سال پہلے دلیپ کمار اور پچھلے سال لتا جی بھی اپنی اوازوں کا خزانہ چھوڑ کر ہم سے دور چلی گئی تھیں۔

تین سال پہلے جب دلیپ کمار کا انتقال ہوا تھا اسی شام ذیل کی تحریر لکھی تھی:

“آج دن کی پہلی خبر دلیپ کمار کے موت کے سنی اور پھر یوں ہوا کہ کئی دنوں سے بوجھل اور رکی ہوئی طبیعت کے بند آج دلیپ کمار کے انتقال کی خبر سے یکا یک ٹوٹ گئے۔۔۔

گو یہ خبر اس اعتبار سے اتنی اچانک تو نہ تھی کہ پاکستان کے شہر پشاور کی ہند کو زبان بولنے والے “یوسبے” نے ایک لمبا عرصہ بستر مرگ پر گزارا تھا اور کسی بھی لمحے ان کی سنانی آنے کا دھڑکا لگا رہتا تھا بلکہ عملاً بھی دسیوں بار ایسا ہوا کہ اچانک کسی پوسٹ میں ان کے انتقال کی خبر پڑھنے کو مل جاتی مگر تھوڑے ہی وقت میں بعد اس کی تردید بھی آجاتی تھی۔ لیکن اس دفعہ یہ خبر ملی تو خواہش ہی رہی کہ خبر کی تردید آ جائے مگر چونکہ اس دفعہ خبرجیونیوز کی تھی لہذا خبر سنتے ہی دل پر ایک گھونسا لگا۔ 

گزشتہ بیس پچیس دنوں کے دوران حالات کچھ ایسے رہے کہ طبیعت ہر چیز سے اچاٹ ہوگئی تھی۔ روزمرہ کی ناگزیر اور ملازمتی امور کے علاوہ لکھنے پڑھنے کی ہر شے سے دلچسپی مکمل طور پر ختم ہوگئی۔ حتی کہ سوشل میڈیا اور فیس بک کی تفریح سے بھی اکتاہٹ ہونی لگی۔ اس دوران ایک حرف بھی نہ لکھا گیا۔ بہت ناگزیر صورتوں کے علاوہ، جیسے دوست احباب کی بیماری یا اقارب کے انتقال پر کچھ دعائہتعزیتی کلمات وغیرہ، ایک لفظ تک لکھنا نا دوبھر رہا۔

دنیا میں چل چلاؤ کا سلسلہ لگا ہی رہے ہے لوگ مرتے ہی رہتے ہیں دلیپ کمار نے تو ویسے بھی ایک بھرپور زندگی گزاری تھی انہوں نے بستر مرگ پر بھی اتنی شاندار زندگی اور ایسی توجہ خواہ حیات گزاری تھی جو ہم جیسے بہتوں کے لیے قابل رشک رہی ۔ مگر پھر یکایک دلیپ کمار کی موت کی خبر میرے لیے اتنی دچکا آور کیوں ہو گئی؟

بات یہ ہے کہ دلیپ کمار ان لوگوں میں سے تھے جو اپنی زندگی میں ہی ایک داستان بن جاتے ہیں۔

چند برس پہلے کی بات ہے کہ ایک اداس سفر سے واپسی پر رفیع کا ایک گانا آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے سن رہا تھا تو یکایک محسوس ہوا رفیع کی آواز محض ایک شخص کی آواز نہیں  ایک پورے دور اور کلچر کی آواز ہے۔ اور یہ معاملہ صرف رفیع کا نہیں تھا۔

 محمد رفیع کی آواز اور دلیپ کمار کا انداز ہمارے لئے محض دو اشخاص نہیں تھے بلکہ یہ ہماری ثقافتی زندگی اور لوک ورثے کا حصہ بن گئے ہیں۔

سوچتا ہوں تو یاد اتا ہے کہ زندگی میں دلیپ کمار کی پہلی فلم شائد 1982- 83 میں میلہ آخری فلم 1999 میں قلعہ دیکھی تھی۔ مگر رفیع کی آواز تو کہیں بچپن ہی میں کانوں میں گونجنے لگی تھی۔ ہمارے چھوٹے سے شہر سانگڑھ میں تب سرعام گانے بجانے کی عیاشی شاید کچھ ہی ہوٹلوں میں ممکن تھی۔ کسی ہوٹل میں بیٹھ کر چائے وغیرہ پینا تو، استغفر اللہ، میٹرک کے بعد تک بھی ممکن نہ تھا ہاں چلتے پھرتے راستوں پر دور کسی ہوٹل کے گرامو فون سے گھسے ہوئے ریکارڈ سے ہوا کے لہروں پر لرزتی اواز کا کانوں میں پڑنا چونکہ اختیاری عمل نہ تھا لہذا اس زمانے میں استفادہ از ہوٹل کا یہی واحد طریقہ ممکن تھا۔ اس دور میں جس اواز نے سب سے پہلے بے اختیار اپنی طرف کھینچا تھا وہ

“یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں”

تھی۔ شاید یہ اسی پہلی آواز کا اثر تھا کہ دنیا کی اکثر بھری پُری محفلیں اج بھی دل کو زیادہ نہیں بھاتیں۔ ان کے بجائے شہروں سے دور گاؤں دیہاتوں میں برآمدوں کے بغیر والے سوندھی مٹی کے کوٹھوں اور کچی مٹی سے لِپے صحنوں میں میں اترتی بارشوں، انہی کے ساتھ جڑے کھیت کھلیان پہاڑی ندی نالے، وادیاں اور لہلہاتے سبزے کے بیچوں بیچ جھرجراتے جھرنوں کا پانی زیادہ اپنی طرف کھینچتا ہے۔

مجلسوں محفلوں جی اچاٹ کرنے والی رفیع کی اس اواز کے ساتھ یادوں میں اس کے جس دوسرے گانے کی گونج کبھی ختم نہیں ہوتی وہ

یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے

ہے اور تاج محل کا لتا اور رفیع کا گایا وہ دوگانا

جو وعدہ کیا ہے نبھانا پڑے گا

جسے سنتے ہوئے فیصلہ نہیں ہو پاتا کہ داد رفیع کو دی جائے یا لتاجی کو۔ یہی نہیں پھر رفیع اور لتا کی مدھر سندرتا کے ساگر میں تیرتی اوازوں کے کہکشاؤں جیسے بجرے ہیں جن کے ساتھ بہتے بہتے عمر گزاری جا سکتی ہے۔

ابھی دلیپ کو مار کی آخری فلم قلعہ کا ذکر کیا ہے۔ یہ فلم 1998 -99 میں تب دیکھی جب اس سے کچھ ہی دن پہلے نانا پارٹیکر کی ایک فلم “یگ پرش” دیکھی تھی اس کہانی کی کچھ مماثلت دستوئفسکی کے ناول ایڈیٹ سے محسوس ہوئی تھی کیونکہ نانا پارٹیکر پرنس میشکن کا مثیل بنا ہوا تھا۔ عجیب تر اتفاق ہے کہ چند دن بعد جب دلیپ کمار کی “قلعہ” دیکھی تو اس میں دلیپ کمار دستوئفسکی کے کراما زوف برادران والے بڈھے فیودور پاولوچ کرامازوف کے سے روپ میں نظر آئے تھے۔ اپنے اس “انکشاف” کا اظہار اس زمانے میں جب ڈاکٹر سہیل احمد کے نام ایک خط میں کیا تو وہ بھی بہت خوش ہوئے تھے۔

دلیپ کمار کی جن فلموں نے ہمیشہ دل پر اثر چھوڑا وہ یہ ہیں

آن، رام اور شیام، لیڈر، نیا دور، کوہ نور، ترانہ، شکتی، دیو داس، مدھو متی، مغل اعظم، گنگا جمنا وغیرہ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم کا فن آج جس معیار پہ ہے اس کے حساب سے شاید یہ ساری فلمیں بہت اچھی نہ ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ دلیب کمار کی فلموں کی سب سے بڑی خصوصیت دلیپ کمار خود ہیں۔ اپنی اداکاری، کرداری ضرورت کے مطابق ہندوستان کے مختلف لسانی لہجوں پر گرفت، زبان و بیان، مکالموں کی ادائیگی اور سب سے بڑھ کر اواز کے اتار چڑھاؤ سے تاثر کو اس کی بلند ترین سطح پر پہنچانے میں دلیپ کمار کو جو ملکہ حاصل تھا بعد کے فلمی اداکار اس کی نقل کرتے تو دیکھے گئے مگر اس کے قریب کوئی ایک بھی نہ پہنچ سکا۔

سچ پوچھیے تو ہندوستانی فلم میں یہ راز دلیپ کمار نے ہی آشکار کیا تھا کہ طربیہ ہو یا المیہ، اداکاری بے محابہ اچھل کود کا نام نہیں بلکہ فن زبان اور لہجے کے پروقار استعمال کا نام ہے۔

زبان لہجے اور سُر کے علاوہ وہ خدا داد صلاحیت جسے اسانی سے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا، تا حال ہمارے بر صغیر پاک و ہند کے انہی فلمی سورماؤں کو ودیت ہوئی تھی جس کی بنا میں ان تین مشاہیر کو پاک و ہند کی ئی لوگ ثقافت کے بڑے لوگ مانتا ہوں۔

محمد رفیع (1924-1980): دل رہین غم جہاں ہے آج

 دلیپ کمار (1922-2021): ہر نفس تشنۂ فغاں ہے آج

اور

لتا منگیشکر (1929-2022): سخت ویراں ہے محفل ہستی

یہ تین نام فلمی دنیا کے راستے برصغیر پاک و ہند کی لوک ثقافت کا حصہ بن کے یہاں کے باسیوں کے اجتماعی لاشعور میں بسنے والے لوک کلچر کا بن گئے ہیں! پریت ریت کی رچنا جب تک رچتی رہیگی پاک و ہند کے لوگوں کے غمِ دوست سے آباد دل تب تک ان آوازوں سے سجے رہیں گے۔