ظفر حسن- ایک صنعت کار صاحبِ علم اور محقق

یہ تحریر 2096 مرتبہ دیکھی گئی

دور دراز کی خبریں پہنچنے کا واحد ذریعہ اب سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک ہی رہ گیا ہے۔ لیکن اب تو فیس بک کھولتے بھی ڈر لگتا ہے نہ جانے کس محب و محبوب کس عزیز اور کس شفیق بزرگ کے کوچ کی سناؤنی آجائے۔ ہمارے ملک میں جب سے کرونا کا دوسرا دور شروع کروایا گیا (جی ہاں اب اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرا دور بالاہتمام شروع کروایا گیا ہے!) فیس بک پر خوشی کی خبریں کم اور دوست احباب کی بیماری و رخصتی کی اطلاعیں زیادہ آنے لگی ہیں۔

 ان دنوں فیس بک میل ملاقات کے بجائے جدائیوں اور وداعیوں کی دیوارِ گریہ زیادہ بن گئی ہے۔

چند روز پہلے برادر محمود الحسن کی دیوار پر یہ پڑھ کر دل ڈوب گیا کہ “سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت” جیسی دقیقہ رس تحقیق اور معروف شاعر گلزار کی زندگی اور فن پر ایک البیلی انگریزی کتاب کے مصنف ظفر حسن کا بھی دو دن پہلے انتقال ہوگیا ہے۔

ظفر حسن صاحب کا نام پہلے پہل 1985 میں سر سید کے نظریہ فطرت پر ان کے کام کے حوالے سے سنا تھا اور تعارف کروانے والے تھے محمد حسن عسکری۔ عسکری صاحب نے غالباً شمس الرحمن فاروقی کے نام کے خطوط میں کسی جگہ لکھا تھا کہ

 ‘ہمارے ایک نوجوان دوست ہیں جو پیشے کے اعتبار سے صنعتکار ہیں امریکہ سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے، مگر ذوق علمی کی پرواز یہ ہے کہ سرسید کے نظریہ فطرت پر ایک بڑے کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ ایم اے انگریزی کر چکے ہیں اور اب اردو میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں’

بعد میں ظفر حسن کی یہ کتاب ادارہ ثقافت اسلامیہ سے شائع ہوئی تو دوگونا خوشی ہوئی۔ ایک تو کام میرے مطلب کا تھا دوسرے اسے چھپنے سے پہلے بھی جستہ جستہ دیکھنے کا موقع ملا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کتاب کو پوری طرح پڑھنے کی نوبت کہیں بہت دیر کے بعد آئی تھی۔ سر سید تحریک کے بعد ہمارے یہاں نیچر، نیچریت اور فطرت پرستی کی جو بحثیں شروع ہوکر جاوید احمد غامدی کے اصول قانون فطرت تک میں اپنا رنگ دکھا رہی ہیں ظفر حسن کی اس کتاب میں ان مباحث کے شجرۂ فکر سے آگاہی کا پورا سامان موجود ہے۔

ظفر حسن پیشے کے اعتبار سے ٹیکسٹائل انجینئر تھے اور امریکہ سے اس میدان کی اعلی ڈگری لے کر آئے تھے۔ مگر جیسا کہ عسکری صاحب کی تحریر سے ظاہر ہے کہ ان کا من کسی اور ہی دنیا میں لگا ہوا تھا۔ تصور فطرت پر یہ  مقالہ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے رسمی طور پر ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کی نگرانی میں لیکن دراصل عسکری صاحب کے دکھائے اور بتائے خطوط پر لکھا تھا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ مقالہ اصلاً انگریزی میں لکھا گیا تھا یا اردو میں کیونکہ بعد میں ظفر حسن صاحب سے جب ربط ضبط بڑھا تو معلوم ہوا کہ انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا تھا۔ ایک مدت تک ان کا قیام اور کاروبار کراچی میں ہی رہا۔ مگر جب کراچی میں کاروباری سرگرمیوں کے لیے حالات خراب ہوگئے تو ظفر حسن صاحب لاہور سے کراچی منتقل ہو گئے۔ یہ کن دنوں کی بات ہے معلوم نہیں۔

 میرا تعلق ان سے بہت عرصے تک ذہنی کتابی اور فاصلاتی ہی رہا تھا تاآنکہ 2010 میں پنجاب یونیورسٹی اورئینٹل کالج لاہور میں محمد حسین آزاد کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر ہندوستان سے آئے اردو کے معروف ادیب اور نقاد شمیم حنفی اور چند دوسرے مہمانوں کیلیے ایک صاحب نے ہلٹن ہوٹل لاہور میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا۔ مہمانان گرامی چونکہ پنجاب یونیورسٹی کے مہمان خانے میں ٹھہرے ہوئے تھے اس لیے اورینٹل کالج والی نشست کے بعد انہیں ہلٹن ہوٹل لے جانا میری بھی ذمہ داری تھی۔ وہاں ایک صاحب کو دیکھا جو بہت چپ چپ اور اپنے آپ میں سمٹے سمٹائے ایک طرف بیٹھے نظر ہیں۔ اتنے بڑے بڑے لوگوں میں میری حیثیت قدرے ایک غیر متعلقہ شخص کی سی تھی۔ باقی حضرات کو آپس میں گفتگو کرتے پاکر میں نے محض رسماً ساتھ ساتھ والی نشست پر بیٹھے اس خاموش طبع آدمی سے پوچھا

“آپ کا اسم گرامی؟”

“خاکسار کو ظفر حسن کہتے ہیں”

انتہائی مہذب مگر خاکسارانہ تبسم کے ساتھ جواب آیا۔

نام سن کر ماتھا ٹھنکا مگر یہ سوچ ک نظریہ فطرت والے ظفرحسن تو کراچی میں رہتے ہیں، میں خاموش رہا۔ پھر انہوں نے میرا نام پوچھا

 بتایا “عزیز ابن الحسن”!

“ارے اچھا تو آپ ہیں عزیز ابن الحسن، آپ کی اکادمی ادبیات والی کتاب ‘محمد حسن عسکری شخصیت اور فن’ میں نے پڑھی ہے استاد محترم پر بہت اچھی کتاب لکھی ہے آپ نے بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر’۔

تب کھلا کہ اپنے آپ میں گم سم یہ شخص نہ صرف اس ضیافت کا میزبان ہے بلکہ سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت والے ظفر حسن بھی یہی ہیں۔ ان کا یہ عجز اور فروتنی میرے لئے حیران ہونے کی جا تھی۔

اس کے بعد باقی لوگ تو اپنی باتوں میں مصروف رہے مگر کھانے کے اس پورے عرصے میں میں ظفر حسن صاحب سے لگ کر بیٹھا رہا۔

ظفر حسن صاحب سے وہ پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد میں لاہور چھوڑ کر ادھر آ گیا۔ گزشتہ دس برس سے ان سے اکثر رابطہ فون اور خط کتابت ہی کے ذریعہ رہا۔ ہمیشہ فون کرنے میں وہی پہل کرتے بلکہ اس سے بھی پہلے میسج کرکے معلوم کرتے کہ اگر آپ فراغت میں ہوں تو میں فون کروں؟

میسج ملتے ہی میں از خود انہیں فون کرتا۔ وعلیکم السلام کہہ کر گفتگو کا آغاز ایک ہلکی سی ہنسی کے ساتھ کرتے۔ لہجے میں ایسی لجاجت سی ہوتی کہ مجھے حجاب آتا۔ پہلے تو کافی دیر میری “مصروفیات’ میں خارج ہونے پر معذرتیں کرتے۔ اور پھر کہتے “آج پرانے کاغذات دیکھ رہا تھا اس میں فلاں فلاں چیزیں آپ کے مطلب کی نظر آئی ہیں، سوچا آپ کو بھیج دوں”۔

یہ تھا اس شخص کا اندازِ کلام اور اسلوبِ حیات جو نہ صرف ایک ٹیکسٹائل انڈسٹرلسٹ تھا بلکہ اس فیلڈ کا ایک بڑا ڈگری ہولڈر بھی تھا۔ جس کا کاروبار لاہور کراچی تا دوسرے ملکوں میں بھی پھیلا ہوا تھا۔ جو ایک سچا متلاشی علم بھی تھا اور تحقیقی و تخلیقی ذہن اور ذوق کا مالک بھی۔

ابھی پچھلے سال جب ہم نے شعبہ اردو اسلامی یونیورسٹی میں عسکری صاحب کے صد سالہ یوم ولادت کے سلسلے میں پروگرام کیے تو میری بہت خواہش تھی کہ اس میں ظفر حسن صاحب لاہور سے خصوصی طور پر شرکت کریں کیونکہ عسکری صاحب کے شاگردوں میں شاید وہ آخری زندہ آدمی تھے۔ میں مہینوں پہلے سے انہیں اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ بہ ہزار سماجت آخر وہ اس شرط کے ساتھ راضی ہوئے کہ ایک تو میں اسٹیج پر نہیں بیٹھوں گا دوسرا میں کوئی گفتگو نہیں کروں گا اور تیسرے یہ کہ اگر عمر کے ضعف اور صحت نے اجازت دی تو تب میں صرف بطور سامع آؤنگا اور عسکری صاحب کی یاد میں ہونے والے اس پہلے پروگرام میں صرف عزت پانے کے لیے شرکت کروں گا۔ مگر افسوس کہ ان دنوں وہ اپنی ڈگمگ صحت کی وجہ سے لاہور سے اسلام آباد کا سفر نہ کر سکے۔ جس روز ہم نے عسکری صاحب پر پروگرام کیا اتفاق سے اس روز بھی ان کا فون آیا۔ میں نے بتایا کہ آج ہم نے یہ پروگرام کر لیا ہے تو بہت خوش ہوئے۔

ہر دفعہ فون کرتے تو لاہور آنے کی دعوت دیتے۔ کہتے کہ یہاں آپ صرف میرے مہمان ہوں گے۔ ڈیفنس میں میرا گھر ہے اور گلبرگ میں میرا آفس۔ آپ جہاں سہولت محسوس کریں گے وہاں آپ کے قیام طعام کا بندوبست کیا جائے گا۔ مگر افسوس میں ان کے حکم کی بجا آوری کبھی نہ کر سکا۔ حتیٰ کہ آج ان کے گزر جانے کی خبر آگئی۔

ظفر صاحب کی زبان میں ہمیشہ ایک لکنت سی محسوس ہوئی۔ بات کرتے ہوئے کچھ رک رک جاتے تھے۔ معلوم نہیں کہ یہ عارضہ ان کے ساتھ ہمیشہ سے تھا یا بیماریوں کے سبب وہ کچھ ہکلانے لگے تھے۔ تس پر ان کا ایسا عجز اور خاکساری کہ مخاطب خواہ مخواہ کچھ خود کو معزز سمجھنے لگتا کہ اتنا بڑا صنعت کار اور اس سے بھی بڑا عالم اور محقق اس سے اس احترام سے بات کررہا ہے۔ ظفر حسن صاحب جیسے لوگ ہماری تہذیب کی آخری نشانیوں میں سے تھے۔ 

عسکری صاحب پر میری دونوں آخری کتابیں جب انہیں موصول ہوئیں تو بہت لمبا فون کیا اپنی دلنشین شفقت اور رکی رکی سی ہنسی کے ساتھ کتاب کے محتویات کی داد دیتے رہے۔ کہا کہ آپ نے کتاب میں اتنی معلومات جمع کر دی ہیں کہ باوجود اس کے کہ میری مہینے میں ان سے دو دو تین تین گھنٹے کی چار پانچ ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں مگر آپ کی کتاب سے بہت سی باتیں مجھے بھی نئی معلوم ہوتی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے آپ ان کے ساتھ بیٹھ کر سارے حالات جمع کرتے رہے ہیں۔

جن دنوں کتاب “محمد حسن عسکری ادبی اور فکری سفر” تدوین کے آخری مرحلے پر تھی انہی دنوں ظفر حسن صاحب لاہور سے عسکری صاحب کے بارے میں جو بہت سی چیزیں بھیجیں ان میں عسکری کے اس معروف دست نوشتہ خط کی فوٹو کاپی بھی تھی جو انہوں نے فرانسیسی عالم محمد ارکون کی ساختیاتی نقطہ نظر سے لکھی فرانسیسی تفسیر قرآن پڑھ کر انہیں سوسورین لسانیات اور لیوائی سٹراؤسین ساختیات کی کوتاہیوں کے حوالے سے انگریزی میں لکھا تھا۔ اور جس سے پڑھ کر، بقول ڈاکٹر محمد حمیداللہ، آرکون صاحب، جو فرانس میں مسلم اہل علم حلقہ کے لئے ایک مسئلہ بنے ہوئے تھے، پاکستان کے ایک گوشہ گیر نقاد عسکری کے دیوانے ہوگئے تھے۔ علاوہ ازیں ظفر صاحب نے یوسفی صاحب کا ایک خط بھی بھیجا تھا جس میں مشتاق احمد یوسفی نے ظفر حسن کے والد اور ان کے خاندان کے بارے میں بڑے دلچسپ پیرائے میں گفتگو کی تھی۔ اسی خط کے حوالے سے برادرم محمود الحسن نے حال ہی میں لکھا کہ

“ظفر حسن صاحب کے والد کی یوسفی صاحب سے بہت دوستی تھی۔ ’زرگزشت ‘ کا انتساب جن دو دوستوں کے نام کیا ان میں ایک ظفر صاحب کے والد فضل حسن ہیں۔ان کے بارے میں یوسفی صاحب نے شگفتہ پیرائے میں لکھا:

 ’فضل صاحب شعر و ادب ، شکار اور ورزش اور کلاسیکی موسیقی کے رسیا تھے۔جامع الحیثیات شخصیت ، کئی ہزار کتابوں اور ایک ٹیکسٹائل مل کے مالک تھے۔ شاعروں اور ادیبوں کو اس طرح جمع کرتے تھے جیسے بچے ڈاک کے استعمال شدہ ٹکٹ اور بڑے خارج المعیاد یعنی پرانے سکے جمع کرتے ہیں۔‘ “

ایسے والد کے بیٹے تھے ظفر حسن جو خود بھی اپنی ذات میں ایک مجموعہ کمالات تھے۔ پارچہ بافی کی کارخانوں کے مالک ہی نہیں بلکہ اس تیکنیکل میدان میں ڈگری یافتہ بھی تھے۔ انگریزی اردو کے ایم اے بھی تھے اور محمد حسن عسکری جیسے نابغہ روزگار نقاد کی شاگردی اور ان کے ساتھ ہم نشینی کا شرف بھی رکھتے تھے۔

وہ اہل علم دوست احباب کی دعوتیں کرکے خوش ہونے والے اور گلزار جیسے شاعر اور منفرد ڈرامہ، فلم نگار اور ہدایت کار جیسے متنوع مزاج آدمی کے دوست ان پر ایک بہترین کتاب کے مصنف اور پاکستان میں گلزار کے اردو کلیات کی اشاعت کے منتظم بھی تھے۔

پر سال “بال و پر سارے” کے عنوان سے گلزار کا یہ کلیات جیسے ہی شائع ہوا ظفر حسن صاحب نے ازرہ کرم ایک نسخہ خاکسار کو بھی ارسال کیا تھا۔ میں کہ ہمیشہ کا کاہل آدمی یہ سوچ کر بروقت اطلاع بھی نہ کر سکا کہ بعد میں بات کر لوں گا۔ مہینے بھر بعد ان کا فون آیا اور کافی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ آخر میں بولے کہ “وہ ایک کتاب آپ کو بھیجی تھی اگر کبھی مل جائے تو اطلاع کر دیجئے تاکہ اطمینان ہو کہ ضائع نہیں ہوئی”۔ مجھ پر گھڑوں پانی پڑگیا۔ میں شرمندہ اب کیا کرتا۔ معذرت کی۔ بتایا کہ کتاب مل گئی تھی مگر نالائقی کے سبب اطلاع نہیں کر سکا۔ بولے کہ “نہیں نہیں کوئی بات نہیں آپ مصروف آدمی ہیں دیر سویر ہو جاتی ہے، میں نے تو بس ویسے ہی پوچھ لیا”!

 ایسی خوبیوں والے انسان کا دو دن پہلے 83 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا اور ادیبوں دانشوروں کے حلقے میں شاید کسی کو پتہ بھی نہ چلا۔ گوشہ گیر درویشوں کا مقدر شاید ایسا ہی ہوتا ہے۔ ظفر حسن کا نہ کوئی حلقہ تھا نہ کوئی جماعت۔ ایسے لوگ اپنے شہر اپنے ملک میں بھی غریب الوطنی کی زندگی گزار جاتے ہیں۔ ایسوں کا اجر اللہ ہی کے ہاں میں محفوظ ہے۔ ان کی زندگی میں بہت دفعہ سوچا تھا کی اس درویش صفت انسان کے بارے میں کچھ لکھوں۔ اس مقصد کی خاطر ان کا حیات نامہ (biodata) بھی ان سے منگوایا جو یونیورسٹی میں ہی کہیں رکھا ہے مگر اس وقت میرے سمیت یونیورسٹی بھی کرونا بندی کا شکار ہے۔ اس لیے یہ چند کلمات لکھتے ہوئے ان کے حیات نامے سے کوئی استفادہ نہ کر سکا۔ پھر کبھی موقع ملا تو انکے وقتاً فوقتاً بھیجے ہوئے کاغذات، فرنچ مفسر قران کے نام عسکری کے دست نوشتہ انگریزی خط کی نقل اور ظفر حسن کی معرکۃ الآراء کتاب

  “سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت”

  کے حوالے سے کچھ معروضات پیش کروں گا۔

  اس وقت یہ سطور لکھتے ہوئے دل ظفر حسن صاحب کی یادوں سے بوجھل ہے اور یہ کلمات ان کی خوبیوں کے انبار کے مقابلے میں بہت ہلکے پڑ رہے ہیں اس لیے سر دست اتنا ہی کہہ پا رہا ہوں کہ

  “محترم ظفر حسن صاحب! آپ کی شفقت اور محبت کا اس دل پر بڑا گہرا نقش ہے۔ آپ کی یوں چلے جانے کی اطلاع پاکر دل افسردہ اور آنکھیں ویران ہیں۔ کان اب کبھی وہ آواز نہ سن سکیں گے جو ہم کلام ہونے سے پہلے بیسیوں طرح پر ‘مصروفیت میں حارج’ ہونے پر معذرت پیش کیا کرتی تھی۔ آپ ویسے بھی کم گو انسان تھے مگر پھر بھی تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد آپ اپنے ہونے اور خیریت کی اطلاع کر دیا کرتے ہیں مگر ابکے تو آپ چپکے سے رخصت ہو گئے اور ہمیں پتہ بھی نہ چلا۔ اب کے ہوا ہی کچھ ایسی چلی ہے کہ  درختوں سے اگلے وقتو کے پرندے ایک ایک کر کے اڑے جا رہے ہیں اور ہم ان کی ٹنڈ منڈ شاخیں حسرت سے دیکھا کرتے ہیں۔

  دعا ہے اللہ تعالی آپ کو سدا اپنے قرب میں رکھے”۔