احمد جاوید کی خدمت میں

یہ تحریر 645 مرتبہ دیکھی گئی

 24 مئی (2023) کو شعبہ اردو اسلامی یونیورسٹی اور ادارہ اقبال برائے تحقیق و مکالمہ میں میر کے تین سو سالہ پروگرام میں شرکت کیلیے احمد جاوید خصوصی طور پر لاہور سے تشریف لائے تھے۔ مقرر محترم کے تعارف کی ذمہ داری منتظمین کیطرف کے اس ناتواں کے کندھوں پر ڈالی گئی تھی۔

یہ فریضہ خاکسار نے جس طرح سر انجام دیا اسکی تفصیل یہ ہے:

‘ میں اس جگہ احمد جاوید کیلیے تعارفی کلمات کہنے کے لئے کھڑا کیا گیا ہوں اور وقت ہے صرف دس منٹ کا. حقیقت یہ ہے کہ جاوید بھائی جیسے ذوالفنون و ذوالعلوم اور جلال و جمال والی شخصیت کے تعارف کیلیے کئی گھنٹے مطلوب ہیں۔

ویسے بھی ان کے تعارف کیلیے اگر پچیس تیس برس پہلے کا کوئی موقع ہوتا تو تعارف کروانے کا کوئی جواز بھی تھا کہ اُس زمانے میں یہ گوشہ گیر اور مجلس گریز رہا کرتے تھے۔ لوگ ان کی شاعری کو تو جانتے تھے مگر یہ خود کم کم ہی کہیں محفل آرا ہوا کرتے تھے۔

لیکن آج سوشل میڈیا کے دور میں جاوید بھائی کوئی ایسے محتاج تعارف نہیں رہ گئے کیونکہ مختلف حلقوں میں ہونے والی ان کی گفتگوئیں مختلف سماجی رابطہ گاہوں اور یوٹیوب کے ذریعے ایک عالم تک پہنچ چکی ہیں۔

1992-93  کی بات ہے کہ جاوید بھائی نے مجھے اپنا ایک مضمون جس کا عنوان غالباً

“لیکن مجھے اعماقِ سیاست سے ہے پرہیز”

 دیا اور کہا کہ اس پر ایک نظر ڈالو اور اپنا تاثر بتاؤ۔ اس زمانے میں جاوید بھائی کی نثری تحریریں ابھی بہت کم آئی تھیں یا شاید میری نظر ہی سے یہ ان کی پہلی تحریر گزری تھی۔ مضمون پڑھ کر قدرتی طور پر مجھے بے پناہ خوشی ہوئی۔

اگلے روزہ ہی میں نے اپنا تاثر ان کی خدمت میں لکھ کر پیش کیا جس میں کہا کہ

 ابو الکلام آزاد نے سید سلیمان ندوی کو ایک خط میں لکھا تھا کہ

 ‘اگر آپ نے مدرسہ کے چند طالب علموں کو عربی پڑھا دی تو کیا کمال کیا آپ کا علمی مقام اس سے بہت بلند ہے آپ کو اللہ نے دلوں کی دنیا بدلنے کی صلاحیت دی ہے خدارا تگنائے مدارس سے باہر نکلیں اور لوگوں کی تربیت کریں’

میں نے جاوید بھائی سے عرض کیا کہ “آپ کی تحریر پڑھ کر یہی تاثر میرا بھی ہے اللہ تعالی نے آپ کو بڑا مقام اور علم عطا کیا ہے۔ اپنی گوشہ گیری چھوڑیں اور مجلس آرائی کریں”

لیکن آج سوشل میڈیا پر بہ شدت و کثرت ظہور کرنے کی وجہ سے جاوید بھائی جن تنازعات کی زد میں آ رہے ہیں اور ان کے بعض جملوں اور باتوں سے جو غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں اور جس پست سطح کے تنازعات جنم لے رہے ہیں، اب اگر یہ مجھ سے تاثر پوچھیں تو میں انہیں اصحاب کہف کی طرح واپس اسی سابقہ “غارپناہی” کا مشورہ دونگا۔ کیونکہ

 یہ دور اہلِ محبت کو ساز گار نہیں

ہوتا یہ ہے کہ ہعض اہل دانش نادان دوست کا کردار ادا کرتے ہوئے انہیں کسی کی کوئی تحریر کوئی کلپ بھیجتے ہیں اور اس پر انہیں جواب دینے پر “اکساتے” ہیں۔ جب یہ کچھ اظہار خیال کرتے ہیں تو نتیجے میں مزید اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ ان کی باتوں پہ اعتراض کرنے والے جس اخلاقی سطح کے مالک ہوتے ہیں، اپنی وضعداری اور بھلمنساہت کی وجہ سے جاوید بھائی اس سطح پر نہیں اترسکتے یا رفع شر کی خاطر جب خاموشی اختیار کر لیتے ہیں تو کچھ بدآموز و بدسرشت اس پر بھی ہاہاکاری کرتے ہیں۔ ان باتوں کو پھر یہی لوگ اپنے سوشل فورم پر سجا کر مجلس آرائی کرتے ہیں جس سے مزید خرابیاں پیدا ہوتی ہے۔ یہ صورتحال ہم جیسے نیاز بندوں کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔

 ویسے اس حوالے سے میرا ایک اپنا تاثر بھی ہے۔ جاوید بھائی جتنے بڑے شاعر دانشمند اور ایک طرح سے فلسفہ ایجاد عالم ہیں اتنے اچھے “پروفیسر” نہیں ہیں۔ فلسفی وہ ہوتا ہے جس کا فہم اور تفکر فلسفہ طراز ہوتا ہے۔ جس کے سرسری انداز میں کہے جملے، اگر واضح نہ بھی ہوں تب بھی، عمیق اور دور رس معانی کے حامل ضرور ہوتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس فلسفے کا ایک پروفیسر، خواہ خود خود فلسفی ہو یا نہ ہو، فلسفیانہ مسائل اور موضوعات کو منطقی تدریج اور وضاحت کیساتھ مخاطب کیلیے قریب الفہم اور سریع الاثر کر دکھانے کا ہنر رکھتا ہے۔ اس کی باتوں میں عمق ہو یا نہ ہو وہ ترسیل کے فن کا ماہر ہوتا ہے۔

جاوید بھائی کی گفتگو اور جملوں میں عالمانہ اشارات، عارفانہ نکات اور فلسفیانہ دقائق ہوتے ہیں ان میں مقدمہ کے قیام سے لے کر مطالب کی توضیح بھی ہوتی ہے مگر منطقی ترتیب کے ساتھ اپنے موقف کو نکتہ بہ نکتہ کسی نتیجہ خیزی تک پہنچانے کا عمل بعض اوقات انکے ہاں تشنہ رہ جاتا ہے کیونکہ وہ اسے سامع اور قاری کے ذوق اور فہم کے بھروسے پر چھوڑ دیتے ہیں جس سے پھر خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔

خیر یہ لمبی باتیں ہیں۔ میرا ان سے چونکہ تیس سال پرانا تعلق ہے اس لئے اپنی یہ کشمکش میں نے نہایت نیازمندی سے عرض کر دی، جس کا اظہار اب تکلیف دہ انداز میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی ہونے لگا ہے۔

2019 میں میں نے ایک کتاب ترتیب دی تھی جسکا انتساب میں نے سراج منیر اور جاوید بھائی کے نام کیا تھا۔ اس انتساب میں فروغی بسطامی کے 17، 18 اشعار تھے جن میں سے دو یہ ہیں

چہ عقدہ ہاست بکار دلم ز بخت سیاہ

کہ زلف دوست بلند است و دست من کوتاہ

دمے بچشم من آں سروقد نہشت قدم

گہے بحال من آں ماہ رو نکرد نگاہ

……..

میر کی تین صد سالہ تقریبات کے سفر کا پروگرام ہو اور احمد جاوید اس میں گفتگو کریں تو منظر دیدنی اور بات شنیدنی ہوتی ہے۔ میر پر ان کی اس گفتگو کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں بھی ان کے سامنے چند سوال رکھنا چاہتا ہوں امید ہے کہ جاوید بھائی اپنی گفتگو میں اس طرف بھی توجہ کریں گے۔

1۔ جس شے کو ہم ورلڈ ویو یا تصور کائنات کہتے کیا ہند اسلامی یا مسلم تہذیب میں اس کے کوئی انفرادی خدوخال تھے؟

2۔ کیا شعر و ادب اور فنون کی دیگر روایتی اوضاع میں کسی تہذیب کے تصور کائنات کا اظہار ہوا کرتا ہے؟ یا دوسرے لفظوں میں کیا تصور کائنات  کسی تہذیب کے فنی اوضاع کو بھی متاثر کرتا ہے؟ یہ سوال سلیم احمد کی تحریروں سے اخذ کردہ میرے اس تاثر کی بنیاد پر ہے کہ ہند اسلامی تہذیب کا تصورِ کائنات نہ صرف کسی تہذیب کی فکری اقدار کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس کی شعری ہیئتوں اور فن میں جمال پیدا کرنے والے جملہ آلات از قسم  تشبیہ و استعارہ ،رعایت لفظی، ابہام، علامت و تجرید اور بیان و بلاغت کے جملہ فنی لوازم کی رگ پے تک اترا ہوتا ہے۔ ہم جاوید بھائی سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہند اسلامی تہذیب کے تصور کائنات نے کلاسی فارسی اردو شعریات کو کیسے متاثر کیا اور میر نے اپنے فن میں یہ سب کیسے برتا ہے؟

ان سوالوں کا دراصل ایک پس منظر ہے۔

ہمارے زمانے میں میر شناسی کے امام اعظم کہے جانے والے شمس الرحمن فاروقی کا شمار معدودے چند ایسے اسلوبیاتی و ہیئتی نقادوں میں ہوتاہے جو کسی فن پارے میں کار فرما سماجی و تہذیبی عناصر اور حیات و کائنات کے مسائل کا ادراک بڑے سے بڑے ترقی پسند سے زیادہ رکھتے ہیں۔ وہ اسلوبی تنقید کی محدودیتوں کا اعتراف بھی کرتے نظر آتے ہیں مگر ان کی تنقید کا مجموعی تاثر انگلستان کی “نئی تنقید” والے آئی اے رچرڈز، ولیم ایمپسن اور امریکہ میں جان کرو رینسم و کلینتھ بروکس کے منہج تنقید کیطرح  ‘فن پارے تک محدود’ رہ جانے والے مزاج ہی کا ہے

     فاروقی نہ صرف اس دور کے بلکہ جدیدیت کی اس نہج کے بھی سب سے بڑے نقاد ہیں اس لئے ہم  جدیدیت کی ایک مخصوص نارسائی کا بیان انہی کے ہاں کی ایک خاص صورتحال کی طرف اشارے سے کریں گے:  فاروقی بطور ایک اصول کے ادب کی تہذیبی اقدار کا نہ صرف انکار نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے معرکۃ الآراء کارنامے “شعر شور انگیز” میں کلاسیکی شعریات کی بازیافت کے ذیل میں غزل کی رسومیات کے ساتھ اس کے تصور کائنات اور تہذیبی معاملات کو بہت اہمیت دیتے رہے تھے۔ مگر ان معاملات کی حیثیت ان کے تصور تنقید میں ہمیشہ ثانوی اور بسا اوقات نادرست بھی رہی ہے۔ مثلاََ “شعر شور انگیز” کی جلد چہارم میں تصور کائنات پر بعض قابلِ قابل قدر باتوں کے باوجود انہوں نے لکھا ہے کہ ہماری تہذیب میں انفس پر آفاق کو فوقیت دی جاتی ہے ( ص 160)۔

 ان کے اس خیال کو ہند اسلامی تہذیب کے تناظر سے قطع نظر، میرا خیال ہے کہ، خود میر کی شاعری کی روشنی میں بھی درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تمام کلاسیکی فارسی اردو شاعروں اور صوفیا کی ہمنوائی میں میر کا مؤقف تو یہ ہے کہ

آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ

آئینہ تھا یہ ولے قابلِ دیدار نہ تھا

کیا اس شعر میں میر عالم یعنی آفاق کو واضح طور پر آدم یعنی انفس کا مرہونِ منت نہیں کہہ رہے؟ کیا اس تناظر میں فاروقی صاحب کا انفس پر آفاق کی فوقیت والا خیال درست ہے؟

“شعر شور انگیز” کے دیباچوں میں ہند اسلامی کلاسیکی شعری تصورات اور سبکِ ہندی کے تنقیدی شعری خصائص کے بیان میں فاروقی صاحب نے تین چیزوں پر بہت زور دیا ہے:

1۔  شعریات

2۔  رسومیات اور

3۔  تصورِ کائنات

 ان معاملات پر انہوں نے طول طویل بحثیں کی ہیں۔ ان کے بیان کردہ تصور کائنات کے مشمولات کے بارے میں ہمارا خیال یہ ہے کہ، کلاسیکی شعریات، غزل کی رسومیات اور تصور کائنات پر اتنا زور دینے اور اسے درست طور پر مؤکد کرنے کے باوجود، جب وہ میر کے اشعار کی شرح کرتے ہیں تو ان کے ہاں غزل کی

 رسومیات [عشقیہ شاعری، ہر شعر کا الگ الگ مضمون کا حامل ہونا، نارسائی کے مضامین، شعر کے متکلم کا کائنات سے متحارب ہونا  وغیرہ]

 اور شعریات [بحر و قافیہ ،معنی و مضمون آفرینی اور انہیں جنم دینے والی جدلیات]

 کا تجزیہ اور نت نئے معنی نکالنے کا ذوق تو خوب نظر آتا ہے، مگر تصور کائنات و تہذیبی مباحث یا ہوتے ہی نہیں یا دبے رہتے ہیں یا ان کا مفہوم بدل جاتا ہے۔ یہ ان کی ہیئت پرستانہ و اسلوبیاتی جدیدیت کی بہت خاص نارسائی ہے۔

  شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنی کتاب “اردو کا ابتدائی زمانہ” میں امیر خسرو کو سبکِ ہندی کا اولین نظریہ ساز قرار دیتے ہوئے اس کے ’’شعر کی علمیات‘‘ کے ذیل میں لکھا ہے خسرو کے نزدیک’’شعر کا سروکار عظیم تر حقائق اور بزرگ تر معاملات سے ہے،  نری’ اطلاع‘ فراہم کرنا شعر کا کام نہیں، شعر کا کام حکمت بیان کرنا اور حکمت سکھانا ہے‘‘۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ  شاعری کا انحصار اگر اس کی غیر فنی / غیر جمالیاتی اقدار (مثلا تصور کائنات وغیرہ)، جو درحقیقت خلافِ فنی نہیں بلکہ بالائے فن اقدار ہوتی ییں، کو اگر نظر انداز کر دیا جائے، یا کم از کم عظمت شعر کا انحصار ان اقدار پر نہ مانا جائے تو پھر فاروقی کی خسرو والی بات کو اپنی تائید کے ساتھ بیان کرنے کا کیا مطلب ہے؟ محض فنی حدود کے اندر رہنے والے معیار کی موجودگی میں ’عظیم تر حقائق اور بزرگ تر معاملات ‘، جن کا مجموعہ بلا شبہ حکمت ہے، کس شے کو قرار دیا جائے گا؟ کیا محض تشبیہ و استعارہ، رعایت لفظی، ابہام، علامت و تجرید اور بیان و بلاغت کے جملہ فنی لوازم ، ہیئت پرستی اور جدیدیت کے وہ تمام مسائل و سروکار ، جن کے ساتھ فاروقی کو خصوصی شغف رہا ہے، ’’حکمت‘‘ جیسی بھاری بھرکم شے کا بوجھ اٹھا سکتے ہہیں؟

  فاروقی نے لکھا ہے کہ آج

“کلاسیکی غزل کی رسومیات تو بجنسہ موجود ہے اور اس پر آج عمل بھی ہو رہا ہے مگر اس کا نظریہ کائنات بڑی حد تک منہدم ہو چکا ہے لیکن اس کے آثار باقی ہیں اور ہم اسے حاصل کر سکتے ہیں لیکن کلاسیکی غزل کی شعریات تقریباً ساری کی ساری محو ہو چکی ہے اور اس کے بڑے حصے کو نقادوں نے خود ۔۔۔ مسترد کر دیا ہے”۔

 غزل کی شعریات اور رسومیات کا شعور زندہ کرنے پر فاروقی نے خوب کام کردیا ہے مگر ہند اسلامی تہذیب کے تصور کائنات کے بارے میں کیا ان کے خیالات اس تصور کائنات کا درست فہم پیدا کر سکے ہیں؟

فاروقی صاحب کا خیال ہے کہ  محمد حسن عسکری کا تصورِ روایت، جسے بعد میں انہوں نے مشرق و مغرب کے کل کلاسیکی ادب کی عظمت کا ایک معیار قرار دیا تھا، درست نہیں۔ سوال ہے کہ ہند اسلامی تہذیب کے تصور کائنات کے عنوان کے تحت انہوں نے خود جو کچھ لکھا ہے کیا وہ اس تصورِ کائنات کی درست تعبیر کرتا ہے؟ اور جہاں کہیں انہوں نے میر کے بعض اشعار کو اس پہلو سے کھولنے کی کوشش کی ہے کیا وہ ادھورے پن کا تاثر نہیں دیتی؟؟؟

بعضے نقادوں کا کہنا ہے کہ اردو کی کلاسیکی شعریات کی بازیافت کرکے شمس الرحمن فاروقی نے عسکری کی پھیلائی ہوئی بعض مستقل خرابیوں کو دور کیا ہے۔ سوال ہے کہ عسکری کی غلطیاں تو چلیے فاروقی نے درست کر دیں مگر خود فاروقی نے ہند اسلامی تہذیب کے تصور کائنات کی جو مٹی خراب کی ہے اس کی درستی کی مہم کون سر کرے گا؟ امید ہے کہ جاوید بھائی میر پر اپنی آج کی مؤقر گفتگو کے دوران ان پہلوؤں کو بھی مدِ نظر رکھیں گے۔ ‘