ارحنا یا بلال

یہ تحریر 2275 مرتبہ دیکھی گئی

گورے چٹے رنگ، گتھے جسم، میانہ قامت، بھرواں خدوخال اور بھوراہٹ مائل گھنے بالوں والے بلال سہیل میرے پرانے وقتوں یعنی گورڈن کالج راولپنڈی کے زمانوں کے ساتھی و دمساز ہیں۔ یہ متحرک ذہن اور صاف باطن آدمی ہیں۔ آدرش وادی اور عملیت پسندی دونوں کسی ایک ہی شخصیت میں کم جگہ پاتی ہے مگر بلال کی طبیعت میں یہ دونوں چیزیں ایک خوش طور سانچے میں ڈھلی نظر آتی ہیں۔ شعری ادب اور فکشن دونوں سے راہ و رسم رکھتے ہیں مگر خود صرف شاعری کرتے ہیں۔ نظمیں غزلوں سے بڑھ کر کہتے ہیں اور غزلیں نظموں پر فائق محسوس ہوتی ہیں۔ شاعری ایسی کرتے ہیں کہ ایک طرف زبان اور الفاظ کا کلاسیکی سبھاؤ اپنے رنگ کی داد طلب کرتا ہے تو دوسری طرف خیال اور حسیت کا جدید اور شدید رچاؤ کچھ موقعوں پر در آنے والے کھردرے پن کو نرماہٹ کی سان پر کس کے خوشگوارِ طبیعت بنا دیتا ہے۔ یہ دونوں خوبیاں انہیں اپنے استاد ڈاکٹر سہیل احمد خان سے ملی ہیں۔

ویسے تو بلال ہر اعتبار سے ایک عقلی آدمی ہیں اور بے جا عقیدتوں سے بھاگتے ہیں مگر مذہب بیزار بالکل نہیں۔ صوفیوں سنتوں کے دلدا دہ رشیوں منیوں کے گن گائک ہیں اور درویشوں ولیوں ولا رکھتے ہیں۔ نعت رنگ شعر کہتے ہیں مگر چونکہ عقلی محبت کے قائل ہیں اس لئے غلو سے بچتے ہیں۔ اپنے استاد کے ذکر پر البتہ ان پر ایک عجیب سی وارفتگی طاری ہو جاتی ہے۔ استاد سے انکی عقیدت اور شیفتگی کا اندازہ ان کے اس قطعہ سے جو انہوں نے انوری کے ایک قطعے استفادہ کرکے کہا ہے

آفریں بر سہیلِ فردوسی

آں فراست نژاد و فرخندہ

او کہ استاد بود ما شاگرد

او خداوند بود ، ما بندہ

بلال سہیل کے مزاج میں ترقی پسندی بھی ہے جدیدیت کیلیے وارفتگی بھی اور تحریک تنویر والی عقلیت سے دلبستگی بھی مگر اپنے مزاج کو یہ سبھی راس نہیں۔ گفتگو میں اگر ایسے ٹیڑھے مقام آجائیں تو کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان معاملات میں بلال سے الجھا نہ جائے۔ بحث بازی کے بجائے بس چپکے سے ان کے سامنے استاد کے موقف سے کوئی سند سدِ راہ کے طور پر لا رکھی جائے اور اپنا کام نکالا جائے۔ بلال کہ پرم پرا اور لحاظ مروت والے آدمی ہیں ایسے موقع پر وہ قائل ہوتے ہیں یا نہیں، لیکن بس خاموشی ضرور اختیار کر لیتے ہیں۔ سعادت مندی اور کسے کہتے ہیں!

بلال سے علیک سلیک لاہور کے زمانے سے تھی جب حلقہ ارباب ذوق لاہور کی ہفتہ وار نشستوں میں میرا بکثرت جانا رہا۔ بلال اس زمانے میں شعبۂ اردو اورینٹل کالج میں ڈاکٹر سہیل احمد خان کے ہونہار شاگرد کی حیثیت سے پاک ٹی ہاؤس کے نونہالانِ ادب میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے تھے اور حلقہ ارباب ذوق کی نشستوں اور مباحثوں میں بڑی خاموشی سے شرکت کیا کرتے تھے۔ مگر بلال سے باضابطہ تعلق تب بنا جب میں 1999 میں گورڈن کالج میں آیا گیا۔ وہاں شعبۂ نفسیات کو Amjad Tufail نے باعتبار بنا رکھا تھا اور شعبہ اردو میں بلال کے علم و فضل کا طوطی بولتا تھا۔ وہاں ان کی دوسری شہرت نظم و ضبط کے پابند اور باقاعدہ کلاس لینے والے استاد کے طور پر تھی۔

عام دونوں میں بلال پینٹ شرٹ اور کبھی شلوار قمیض پہنتے تھے مگر سردیوں میں پینٹ کے اوپر بند گلے والا ماؤ اسٹائل کوٹ ڈاٹا کرتے جس کے سارے بٹن ہمہ وقت بند رہتے تھے۔ جب کہرہ پڑنے لگتا تو سر پہ گرم ٹوپی بھی نظر آنے لگتی تھی۔

ان کے اصل جوہر مجھ پر گورڈن کالج میں ہی آکر کھلے تھے۔ لفظ شناسی زبان دانی و صنعت گری سے شغف، عروض و بحور پر گرفت اور اساتذہ کا کلام سے استناد استشہاد اور استفاد بلال کا خاص ذوق تھا۔ اس کے علاوہ تحقیق و تدقیق کے کاموں میں بھی انہیں بہرہ وافر ملا تھا۔ اس زمانے میں فارسی نقد و تحقیق کے اپنے انداز کے واحد عالم، مخطوطہ شناس اور فارسی بولنے سمجھنے والی دنیا میں ممتاز شہرت رکھنے والے پاکستانی محقق ڈاکٹر عارف نوشاہی بھی شعبہ فارسی کا وقار بڑھائے ہوئے تھے۔ فراغت کے وقتوں میں بلال سہیل اور ڈاکٹر نوشاہی سے خوب گپ شپ ہوتی۔ نوشاہی صاحب اور بلال سہیل جب کسی لسانی و ادبی یا تحقیقی مسئلے کی گرہیں کھولتے تو میرا احساسِ کم مائگی اور بڑھ جاتا میرے اندر کے علمی خلا میں مزید وسعت پیدا ہو جاتی۔ چپکے چپکے مجھے پتہ چلتا کہ سیکھنے کو ابھی بہت کچھ ہے۔

مگر افسوس کہ اس طوطئ ہفت مقال کی شکر مقالی سے میں وہاں دو تین برس ہی استفادہ کر پایا۔ جلد ہی بلال پنجاب گورنمنٹ سے فیڈرل گورنمنٹ کالج کی طرف سفر فرما ہوگئے اور میرا ان کا راست تعلق زیادہ عرصہ نہ رہ سکا۔ اس کمی کو اس طرح پورا کیا گیا کہ میں اور نوشاہی صاحب مہینے دو مہینے میں ایک بار بلال کے فیڈرل کالج کا چکر لگاتے۔ وہاں بلال چائے پلاتے اور شعر و سخن کے گلزار کھلاتے تے۔ کچھ عرصے کے بعد میں بھی گورڈن کالج سے دوبارہ لاہور سدھار گیا۔ وہاں سے واپسی ہوئی تو اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں آگیا مگر بلال اپنے اسی کالج میں راولپنڈی ہی پاؤں توڑ کر بیٹھے رہے۔ اسلام آباد آنے کے بعد ایک آدھ دفعہ میں نے کوشش بھی کی کہ بلال کی سطح کی علمیت والا آدمی میری یونیورسٹی میں آجائے مگر ملازمت اور اس سے وابستہ منفعتی و مضرتی امور کی جمع تفریق کے حساب کتاب میں بلال کو یونیورسٹی والا سودا وارے کھاتا نظر نہ آیا اور انہوں نے اپنے فیڈرل کالج، پنڈی میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔ آج وہ اپنے کالج میں صدرِ شعبہ اردو ہیں اور قوم کے بچوں کو فلاح کی صلاح دینے ان میں اردو زبان کی مبادیات کو پختہ کرنے اور ادب کا ذوق نکھارنے میں ہمہ تن مصروف ہیں

ہمارے درمیان راست ملاقاتوں کا سلسلہ اب کافی عرصے سے معطل ہے مگر گزشتہ دو تین دہائیوں والا قلبی تعلق ٹیلی فونی الیکٹرانی رابطوں کی بدولت بدستور قائم رہا۔ تاآنکہ پھر سوشلستان کی راہ سے مرحلۂ بعد کو قرب میں بدلنے کا ایک نیا در وا ہوگیا۔ بلال فیس بک پر اتنے متحرک تو نہیں مگر یہاں سے یکسر غائب بھی نہیں رہتے۔ چوتھے پانچویں روز اپنی کسی غزل کسی نظم کی خواندگی یا کسی شعری لسانی نکتے کی گرہ کشائی یا پرانے دوست احباب کی یادوں اور تصویر کاری کے ساتھ آ موجود ہوتے ہیں۔ یہ اگر کچھ زیادہ دنوں کے لیے غائب بھی ہوں تو جناب معین نظامی اپنی سخن سرائیوں، فارسی شعر و ادب کی باریکیوں، پنجابی زبان کے پلوتوں، بولیوں، آکھان محاوروں اور علاقہ بھیرا کی دیہی زندگی کے رسم و رواج سے متعلق اپنے چھوٹے چھوٹے کتاب چہرہ شہپاروں کی بدولت بلال کو ان کے کنجِ عافیت و عفت سے باہر کھینچ لاتے ہیں۔ ان دونوں “بھیرویوں” کے گرائیں پنے سے جنم لینے والی پنجابی زبان کی لسان کاریوں اور ریتی رواج کی باریکیوں میں مجھ ایسوں کی تفریح علمی کا اچھا خاصہ سامان نکل آتا ہے اور میں شاد کام رہتا ہوں۔

بلال کے ادبی مزاج میں سنجیدگی اور ثقاہت غالب رہتی ہے جب کہ ادھر یہ حال ہے جب بحث مباحثے یک گونہ لفلنٹرپنے کا رنگ نہ ہو چٹور پنے و لذت کشیدنی کے گویا تقاضے ہی پورے نہیں ہوتے۔ مگر بایں ہمہ اختلاف مزاج بلال کے ساتھ نبھتی خوب ہے کیونکہ کبھی کبھار بلال بھی سخن کا پردہ بیچ رکھتے ہوئے ذرا شرما لجا اور چھپا کر کچھ ناگفتنیاں کہہ گزرتے ہیں جسے میں اپنی کامیابی شمار کرتا ہوں۔ مجھے جب کسی کلاسیکی شعری نکتے کی کوئی تحقیق یا ناول و افسانے سے متعلق تفتیش یا کسی لسانی اور ادبی مسئلے میں کوئی مخمصہ درپیش ہو تو بلال سہیل ایک مستند ماخذ کے طور پر ہمیشہ میرے ذہن میں رہتے ہیں۔

لیکن یہ سلسلہ یک طرفہ کبھی نہیں ہوتا بلال بھی کسی نہ کسی بہانے یا ان سے سنا سمجھا آموختہ مستحضر رکھوانے کی خاطر اکثر کوئی نہ کوئی مسئلہ چھیڑے رکھتے ہیں تاکہ میرا دل و دماغ لونی لگنے سے محفوظ رہے۔

ابھی پچھلے مہینے ہی بلال نے ایک شعر ارسال کیا اور کہا کہ کچھ دن اس پہ ذرا غور کرو اور شعر کو الٹ پلٹ کے دیکھتے رہو۔ شعر یہ تھا:

خوشامد کب کریں عالی طبیعت اہلِ دولت کی

نہ جھاڑے آستینِ کہکشاں شاہوں کی پیشانی

میں کئی روز تک شعر سے لطف اندوز رہا مگر ایک روز انہوں نے حکم صادر کیا کہ خالی خولی مزے نہ لو اس کا مطلب بھی بتاؤ۔ اب ظاہر ہے بلال جیسے سخن شناس کا مجھ سے شعر کا معنی پوچھنا میری تعلیم ہی کے لیے تھا لہذا پرچہ امتحان حل کرتے ہوئے میں یوں گویا ہوا:

“متنی تحقیق کے ماہر آپ مجھ سے زیادہ ہے اس بارے میں میں خاموش ہوں کہ شعر کا یہ متن درست ہے یا نہیں۔

میری ناقص فہم کے مطابق، اور یہ آپ بھی جانتے ہیں، مصرع اول بہت واضح ہے یعنی

اعلی ظرف لوگ دنیا داروں کی خوشامد نہیں کیا کرتے۔

دوسرے مصرعے میں اس بیان یا دعوے کی شاعرانہ دلیل دی گئی ہے کہ کہکشاں کی آستین بادشاہوں کی پیشانی نہیں جھاڑا کرتی۔

مصرے میں “کہکشاں کی آستین” عالی طبعیت/ اعلیٰ ظرف لوگوں کی طرف کنایہ ہے اور بادشاہ اہل دولت کا استعارہ ہے۔”

بلال بولے

“لغت میں آستین جھاڑنا کے محاوراتی معنی ہیں: 1 سب کچھ بخش دینا یا نوازنا ۔ 2۔۔۔ ترک کرنا وغیرہ”

اس پر عرض کیا

“اس شعر کی حد تک مجھے لگتا ہے کہ یہاں آستین جھاڑنا کی ترکیب کو محاوراتی استعمال کے بجائے اس محاورے کو لغوی معنی میں استعمال کرلیا گیا ہے۔ میرا یہ قیاس اگر درست ہے تو شعر کے معنی پھر صاف ہیں۔ میرے اس قیاس کی بنیاد سبکِ ہندی کی شعریات کا مخصوص طریق کار ہے۔ تم جانتے ہو ہوں کہ شعر کے پہلے مصرعے میں کسی بات کا دعوی کرنا اور دوسری میں اس کی شاعرانہ دلیل لانا سبک ہندی کے طریقے کار کے مطابق “تمثیل” یا “مثالیہ” کہلاتا ہے۔ ہمارے تمام بڑے لوگوں نے اس پر بات کی ہے جس سے خاکسار نے بھی اپنی کتاب ‘اردو تنقید چند منزلیں’ میں شبلی والے باب میں سبکِ ہندی کی بحث میں اس سے مقدوربھر استفادہ کیا ہے۔

تمثیل یا مثالیہ کے اس مخصوص طریقہ کار کیلے جدید ایرانی نقاد شفیعی کدکنی نے اپنی کتاب “شاعرے در ہجوم منتقدان” میں “مدعا مثل” اور “اسلوب معادلہ” کی اصطلاح برتی ہے۔

سبکِ ہندی کے اس مخصوص طریقہ کار کو صرف ہندوستان کے فارسی اور اردو گو شعرا نے خصوصیت سے استعمال کیا ہے۔ فارسی شعریات ہی سے یہ طریقہ کار ہماری پرثروت علاقائی زبانوں میں آیا ہے۔ میاں محمد بخش کی شاعری تو اس سے بھری پڑی ہے۔

ہسن کھیڈن نال لے گیوں تے پا گیوں وچ فکراں

پارٹی لیر پرانی وانگوں ٹنگ گیوں وچ کِکراں

بات ختم کرنے سے پہلے ایک اور چیز کی طرف اشارہ کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ میں نے یہ نکتہ شمس الرحمن فاروقی کی ایک انگریزی تحریر:

A stranger in the City- the politics of sabke Hindi

میں پڑھا تھا۔

فاروقی صاحب کی یہ تحریر سبک ہندی کی شعریات پر ہمارے زمانے میں لکھی جانے والی تحریروں میں ایک بے مثال اضافہ ہے۔ فاروقی صاحب کہتے ہیں کہ کسی معروف مروج محاورے یا استعارے کو ہمارے سبک ہندی کے شاعر اکثر لغوی معنی میں استعمال کرکے اس سے مزید استعارے تخلیق کیا کرتے تھے۔ ان کے اس طریقہ کار سے مضمون آفرینی کے جونئے نئے آسمان کھلے ہیں وہ ایرانی شاعروں اور ان کی شعریات کے لئے بالکل اجنبی تھے۔ سبکِ ہندی کی شعریات کے اس اجتہاد سے ہمارے کلاسیکی اردو شعرا نے اتنا فائدہ اٹھایا کہ استعارے سے نیا استعارہ اور مضمون سے نیا مضمون پیدا ہونے کے ہزاروں راستے کھل گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں پیدا ہونے والی غزل ایک زمانے میں اپنی جنم بھومی میں تو اجنبی ہوگئی تھی مگر ہندوستان میں غزل کے نئے امکانات پیدا ہونے کا سلسلہ آج بھی ختم ہی نہیں ہو رہا۔

انجمن پنجاب میں میں ڈاکٹر لائٹنر اور کرنل ہالرائڈ کے ہدایت ناموں کی روشنی میں محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی نے نئی اردو شعریات کی بنیاد رکھی تو مضمون سے مضمون پیدا کرنے کے اس طریقہ کار سے یکسر غفلت پیدا ہوگئی۔ ہمارے ان بزرگوں نے بعد والوں کے سینکڑوں اشعار کو اگلوں کے چبائے ہوئے نوالے چبانے اور چچوڑی ہوئی ہڈیاں چوسنے سے تعبیر کیا اور بعد کی پوری اردو تنقید کا مزاج غارت کر دیا۔

ان باتوں کا مذکورہ بالا شعر سے تعلق یہ ہے کہ راقم کے خیال میں میں اس شعر میں آستین جھاڑنے کے محاورے سے استفادہ کرتے ہوئے سبک ہندی کے اصول کے تحت اسے لغوی معنی میں استعمال کر لیا ہے۔ یہی اس شعر کی خوبی ہے۔

تاہم اس سب کے باوجود اگر میں شعر کی درست تفہیم تک نہیں پہنچ سکا تو مجھے اپنے عجز کا اعتراف رہے گا”۔

میرا یاد کیا یہ سبق سن کر بلال نے از رہِ حوصلہ افزائی جواب میں لکھا کہ

“سبکِ ہندی والی بات بہت اعلٰی ہے ۔ فاروقی صاحب نے درست فرمایا۔ آپ سے سو فیصد اتّفاق کر لیتا ہوں کہ محاورے کو لغوی معانی میں برتا گیا ہے، مگراِس شعر میں اُس کی چند لفظوں میں وضاحت کر دیجیے کہ جو دلیل دی گئی ہے کہ کہکشاں کی آستین بادشاہوں کی پیشانی نہیں جھاڑا کرتی۔ یعنی کہ کشاں کی آستین عالی ظرفوں کا کنایہ ہے تو پھر ‘پیشانی جھاڑنا’ کیا ہے”؟

عرض کیا کہ

“بھائی میرے خیال میں تو پیشانی جھاڑنا بہت سادہ سی بات ہے۔ جیسے کوئی نماز پڑھے تو جیسے مصلا نہ ہونے کے سبب پیشانی پر مٹی وغیرہ لگ جاتی ہے۔ سمجھو کہ گویا کسی بڑے آدمی نواز شریف یا آرمی چیف جرنل راحیل شریف و جرنل باجوہ کی پیشانی پر مٹی لگ گئی اب بظاہر بے نیازی کا دکھلاوا کرنے والا کوئی چاپلوس نیازی یا شیخ رشید جیسا دمدار مصاحب جلدی سے آگے بڑھے اور رومال نہ ہو تو اپنی آستین یا قمیض کے دامن سے مٹی جھاڑ کر اپنی وفاداری جلا کر اگلے الیکشن کیلیے نوکری پکی کرلے، تو یہ مطلب ہے ‘پیشانی جھاڑنے’ کا”!⁦☺️⁩

بلال صاحب کہ رمز شناس آدمی ہیں اور تھوڑے کہے کو بہت جانتے ہیں، مجھے شعر شناسی کے اس امتحان میں ترنت پاس کردیا۔

یاد رہے کہ بلال سہیل نے سودا کے اس شعر پر اتنا کشٹ اپنے طلبہ کو پڑھانے کے لئے اٹھایا تھا۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ بلال سہیل کس درجہ محتاط اور دقیقہ کار استاد ہیں۔

کوشش کروں گا کہ اس تحریر کے کسی اگلے حصے میں بلال سہیل کی غزلوں اور نظموں میں سے کوئی انتخاب پیش کروں۔ تب تک احباب سے بلال کی شخصیت کی اس ادھوری سی جھلک سے مستفید ہونے کی التماس ہے۔