نظریے کا جبر اور جبر کا نظریہ

یہ تحریر 2802 مرتبہ دیکھی گئی

اب تو کبھی اس طرف نکلنا ہی نہیں ہوا مگر ایک زمانے میں خالد احمد کے کالم اور انگریزی نثر مجھے بہت پسند تھی۔ لفظوں کے سفر میں وہ ایک کھوجی کی طرح ان کے ساتھ ہوتے اور من موجی انداز میں ان کی کہانی لکھتے۔ انہوں نے “آج کل” کے عنوان سے ایک اردو اخبار بھی نکالا تھا جس میں دیگر بہت سی دلچسپیوں کے علاوہ میری پسندیدہ شے مظفر علی سید کے کالم تھے۔

آج بہت عرصے کے بعد محمود الحسن کے کئے خالد احمد سے ایک انٹرویو میں ان کے پسندیدہ لکھاریوں کا ذکر پڑھا۔ منجملہ اور باتوں کے ذیل کا پیراگراف بہت خیال مہمیز اور سوال انگیز لگا:

“روسی میں عظیم ترین ادب تخلیق ہوا خصوصاً ناولوں میں تو روسی ادب کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس عظیم ادب کے تخلیق ہونے کی وجہ زار کے زمانے کی شورش تھی، یہ اس قسم کی شورش نہ تھی جس طرح کی سوویٹ روس میں تھی، زار نے ادیبوں کو اتنا زیادہ نہیں دبایا جتنا بعد میں آکر نظریے نے دبایا، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایران میں شاہ کے زمانے میں تو ادب تخلیق ہوا، لیکن اسلامی انقلاب کے بعد اس پائے کا ادب تخلیق نہ ہو سکا۔ کیونکہ زار اور شاہ کے زمانے میں کم از کم مزاحمت تو ہو سکتی تھی بعد میں تو ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ مزاحمت کا دروازہ ہی بند ہو ہوگیا، اس لیے بڑا ادب زیادہ تخلیق نہیں ہوا۔‘‘

روس میں “زاری ادب” کی بلند تخلیقی سطح اور بعدِ انقلاب “سوویت ادب” کے بھونپوپن (یعنی پروپیگنڈیت) کی پیدا کردہ پستی پر بہت سے لوگوں نے لکھا ہے۔ خالد احمد کا اشارہ بھی اسی طرف بے۔ انہوں نے سوویت ادب کے جس پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے، ہمارے خیال میں اردو میں اس کی تشخیص پر قدیم ترین تحریر شاید ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کا 1933 میں لکھا مضمون “سوویت روس کا ادب” ہے جو اسی سال کے ان کے لکھے ہوئے ہنگامہ خیز مضمون “ادب اور زندگی” سے اپنے معیار اور اسکے اطلاق میں اتنا مختلف ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ یہ ایک ہی آدمی کے ایک ہی دور کے مضمون ہیں۔ “ادب اور زندگی” میں انہوں نے ہندوستان کے کلاسیکی اردو اور ہندی شعر و ادب کو اس بنا پر بیمار اور زوال آمادہ کہا تھا کہ وہ جاگیردارانہ معاشرت کی پیداوار ہے جبکہ “سوویت روس کا ادب” میں زارِ روس کے استبدادی ماحول میں پیدا ہونے والے ادب کو وہ نہ صرف سوویت ادب سے بہتر قرار دیتے ہیں بلکہ دنیا کے بہترین ادب میں شمار کرتے ہیں اور ایک طرح کے نظری تضاد کا شکار ہوتے ہیں۔

ذہنی آزادی اور روحانی کشادگی کے ماحول میں ادب کے پنپنے، فن کے نکھرنے اور جاگیرداری و شہنشاہی دور میں ادب و فن کے مُرجھانے و زوال پانے کے باب میں ترقی پسند نقادوں نے ٹنوں کے حساب سے نظریہ بازی کر رکھی ہے۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ زار شاہی روس کے “استبدادی ادب” کی تخلیقی علوئے شان اور بعد انقلاب “پرولتاری ادب”  کی شرمناک مُرجھان جیسے مظہر کی موجودگی میں کیا ترقی پسند نقادوں کی مذکورہ فارمولائی نظریہ بازی(پرولتاری ماحول میں ادب کے پنپنے اور استبدادی دور میں ادب کی زوال پذیری) کی ٹکے جتنی بھی کوئی اہمیت رہ گئی ہے؟؟؟ حالانکہ اس نظریے کے اٹل اور ابدی ہونے پر ایک زمانے میں روحوں کے ترقی پسندوں انجنیئروں کو ریاضیاتی و سائنسی یقین تھا۔ اسی برتے پر انہوں نے فارسی اور اردو کے روایتی ادب کو مدتوں رد کیے رکھا تھا۔

 مگر اس بحث میں خالد احمد کا یہ خیال سابقہ ترقی پسندوں سے کچھ مختلف اور مابعد جدید قسم کا واقع ہوا ہے۔ اس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ تخلیقی ادب کے لئے زیادہ خطرناک شے شاہی شورش و استبداد نہیں بلکہ “نظریہ” ہوتا ہے۔ زار روس اور شاہ ایران کے زمانے میں مزاحمت ہوسکتی تھی جبکہ ایران کے اسلامی انقلاب میں مزاحمت کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ اسی کی شہادت انہوں نے شاہی دور کے ایرانی ادب کی بڑائی اور اسلامی انقلاب کے بعد کے ادب کی پتلی حالت سے پیش کی ہے۔ گویا ایرانی انقلاب کے “اسلامی پن” نے ایرانی ادب کو ویسا ہی نقصان پہنچایا ہے جیسا ضرر روسی انقلاب کے “سوویت پن” نے روسی ادب کو پہنچایا تھا۔

شہنشاہی استبداد اور نظریئے کی جبریت کی بحث میں ادب کے لیے زیادہ ضر رساں کون ہے، اسے سمجھنے کے لئے ہم ذرا پیچھے کی طرف لوٹتے ہیں۔ فارسی اور اردو کا بڑا ادب جس دور میں پیدا ہوا ظاہر ہے کہ وہ جمہوری دور نہیں تھا بلکہ جاگیرداری+ شہنشاہیت کا زمانہ تھا اور ترقی پسندوں کے پرانے نظریے کے مطابق وہ ماحول ادب کے لئے سخت مہلک تھا و لہذا ان کے نزدیک اس ادب کا بڑا حصہ زوال پذیر تھا۔ لیکن مابعد جدید لوگوں کے ہاں اب شاید ایسا نہیں سمجھا جاتا۔ پرانے ادب کی طرف کٹر ترقی پسندوں کا رویہ بھی اب پہلے کا سا نہیں رہا۔ اس لئے اس بات کو اب طے شدہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارا پرانا ادب، جو بلاشبہ جاگیردارانہ معاشرت/ شہنشاہی دور میں پیدا اسے شہنشاہی استبداد نے کوئی خاص نقصان نہیں پہنچایا۔🙂

خالد احمد کا کہنا ہے کہ ‘جس طرح “سوویت نظریہ” روسی ادب کے لیے مہلک ثابت ہوا اسی طرح ایرانی انقلاب کا “اسلامی نظریہ” بھی ایرانی ادب کیلیے نقصان دہ ہوا’ کیوں کہ اس نے “مزاحمت” کیلئے گنجائش نہ چھوڑی تھی۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ سیاسی استبداد ادب کے لئے مضر ہو یا نہ ہو نظریے کی جبریت کی ادب کے زیادہ خطرناک ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے کلاسیکی ادب پر نظریے کی جبریت کے کوئ اثرات تھے؟ کیا وہاں “مزاحمت” کے لیے ماحول سازگار رہا ہے؟ اس کے جواب کا انحصار اس امر پر ہے کلاسیکی اردو فارسی ادب کے دور میں کسی نظریے یا آئڈیالوجی کا کوئی وجود تھا یا نہیں؟ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ پرانے زمانوں میں کوئی آئیڈیالوجی یا نظریہ ہوتا ہی نہیں تھا ان کے حساب سے تو معاملہ صاف ہے۔ لیکن جو لوگ اس بات سے اختلاف کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ نظریہ(خواہ سیکولر یا مذہبی) ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے ان کے حساب سے یہ مسئلہ ذرا ٹیڑھا ہے۔ فوکو کے تصورِ کلامیہ (discourse) کے بعد تو “نظریے کے جبر” کا انکار اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔

لہٰذا مکرر وہی سوال ہے کہ ہمارا پرانا کلاسیکی ادب، جو ظاہر ہے کہ اسلامی تصور حیات یا ورلڈ ویو کی موجودگی میں پیدا ہوا تھا اسنے نظرئے/ کلامیے کے جبر سے اپنی تخلیقیت، جمالیات کو کیسے محفوظ رکھا تھا؟

ادب کو سیکولر مظہر ماننے والے نقطۂ نظر سے تو کوئی بحث نہیں کہ وہ ایک موجود فی الخارج شے  سے انکار کے سفسطے میں مبتلا رہتا ہے، مگر وہ نقاد جو خسرو حافظ سعدی رومی عطار جامی عراقی نظیری بیدل ولی سراج درد میر غالب اکبر اور اقبال جیسے شاعروں کے ورلڈ ویو کی “مسلمانی” سے خوب آگاہ ہیں ان سے سوال ہے کہ ان لوگوں کا فن “اسلامیت کے جبر” کے علی الرغم کیونکر پنپتا رہا تھا!

“اسلامیت کے جبر” کا کلمہ یہاں الزامی رنگ میں ہے ورنہ مسلم تصورِ کائنات (worldview) جدید مفہوم میں نظریہ یا آئیڈیالوجی ہے ہی نہیں کہ اسکا کوئی “جبر” ہو. لہذا ہمیں “نظریے کے جبر” کے مفہوم کو حالتِ “التوا” میں رکھتے ہوئے ابھی مزید زیرغور رکھنا چاہیے۔

ویسے تو ایک زمانے میں خاکسار کی بھی یہی رائے تھی کہ ترقی پسند نظریۂ ادب پر کوئی ایسا اعتراض نہیں کیا جاسکتا جو پلٹ کر اسلامی نظریۂ ادب پر بھی نہ وارد ہوتا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں “اسلامی ادب” کی بحث کلی طور پر ترقی پسند نظریہ ادب کے ردِ عمل میں وجود میں آئی تھی۔ یعنی ادب کے ساتھ جو رویہ ترقی پسند ادیب روا رکھتے تھے وہی رویہ اسلامی ادب والوں کا اسلامی ادب کے ساتھ تھا: دونوں کے نزدیک ادب کا سماجی وظیفہ ایک ہی تھا۔ دونوں ادب کو بطور “آلۂ انقلاب” استعمال کرنا چاہتے تھے البتہ دونوں کا تصورِ انقلاب مختلف تھا۔ ترقی پسندوں کے نزدیک یہ انقلاب اشتراکی تھا جبکہ دوسرے گروہ کا مطلوب انقلاب اسلامی تھا۔ ترقی پسند ادیب ادب کو اشتراکی انقلاب کا خادم جانتے تھے جبکہ، ان کے مقابل اور بالکل انہیں خطوط پر، اسلامی ادب والے ادب کو اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کرنے والا گھوڑا سجھتے تھے۔ اس لئے ترقی پسندوں پر ہونے والا اعتراض اسی شدت ان پر بھی وارد ہوتا تھا۔

اس پس منظر میں اگر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کی پوری تاریخ میں ادب کو اس طرح آلۂ انقلاب کے طور پر استعمال کرنے کا کبھی سوچا ہی نہیں گیا تھا۔ حتیٰ کہ اقبال جیسے “انقلابی” شاعر نے بھی ادب کے سر پر کبھی اتنی بھاری ذمہ داری نہیں ڈالی تھی۔ ادب کے ہرن پر لادے جانے والے انقلاب کا یہ گٹھڑ پہلی مرتبہ بیسویں صدی میں ہی تیار ہوا تھا۔ ادب کے پرچاری استعمال کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ادب کا اصلی وظیفہ ہی سماج اور سیاست میں برپائِ انقلاب ہو یہ تصور بیسویں صدی کی ایجاد ہے۔ ہاں ادب ایک طرح کا انقلاب ضرور برپا کرتا ہے مگر خارج میں نہیں بلکہ باطن میں اور دل کی دنیا میں۔ لیکن باطنی انقلاب کا یہ تصور جدید شعور کی طرح مابعد جدید شعور کیلیے اجنبی بلکہ خاصہ وحشت انگیز بھی ہے۔

اسی لئے ہمارا خیال ہے کہ ہمارا قدیم فارسی یا اردو کلاسیکی ادب اس مفہوم میں کبھی اسلامی “نظریے” کے جبر کا شکار نہیں ہوا جس مفہوم میں یہ آج ہو سکتا ہے۔ آج کے اسلامی انقلابی اگر اسی مفہوم اور انہیں خطوط پر انقلاب لانے کا سوچے بیٹھے ہیں جن خطوط پر سوویت یا چینی انقلاب آیا تھا تو آج کے اسلامی انقلابی بھی سوویت انقلابیوں کی طرح پہلے ادب کو انقلابی گھوڑے کی طرح استعمال کریں گے اور انقلاب برپا ہونے کے بعد اسے ذبح بھی کرنا چاہیں گے۔

لیکن ماضی کے بڑے ادب کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے ہے کہ نہ تو خارجی استبدادی ماحول کبھی ادب کا راستہ روک سکا ہے اور نہ ہی یہ کسی “اسلامیت” کے “نظریے” کا شکار ہوتا ہے۔ ادب کا انحطاط صرف ادیب کے تخلیقی ارادے اور اسکی ایجاد کار باطنی امنگ کے زوال سے جڑا ہوا ہے! یہ اگر ختم ہو جائے تو رجولی تہیج کی پژمردگی کی طرح اس کا بھی کوئی دیرپا حل نہیں!

بس  کسان  را  کلت  بیکار کشت

بے رجولیت چنان تیغے به مشت