فاروقی کی غالب مزاجی اور میر پسندی

یہ تحریر 1960 مرتبہ دیکھی گئی

 اردو زبان و ادب کے شمس الناقدین مزاجاً غالبی تھے مگر وہ عاشق میر کے ہوئے۔ بڑا کشٹ اٹھاکر وہ غالب سے خدائے سخن میر کی طرف آئے تھے۔ اپنی فکر کے خلاف جانا آسان ہوتا ہے مگر اپنے ذوق و مزاج کے برعکس جانا بڑی ریاضت مانگتا ہے۔ یہ عمل بہاؤ کے خلاف تیرنے جیسی مشقت اور طوفان سے لڑنے کا سا حوصلہ مانگتا ہے۔

فاروقی کے ہاں یہ ریاضت یہ مشقت یہ حوصلہ اپنی پوری آن بان شان سے تھا۔ میر کو غالب پر ترجیح دے اور اس پر فوق مان کر درحقیقت انہوں نے بڑا دان دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا غالب کا تخیل آسمانی تھا اور میر کا زمینی۔ زمین و آسمان کے ثنوی رشتے (binary relation) میں بظاہر فوقیت آسمان کی ہونی چاہیے تھی لیکن چونکہ آسمانی اڑان والے اکثر زمینی رشتوں اور انسانی کاہشوں سے کچھ غافل سے ہو رہتے ہیں اور انسانی مجبوریوں میں صرف اپنی لاچاریوں اور مصیبتوں کو ہی زیادہ گنتے ہیں اس لیے فاروقی کی تنقیدی کے محاکمے میں زمینی تخیل والا میر آسمانی تخیل والے غالب سے آگے بڑھ گیا۔

“شعر شور انگیز ” کی چار جلدییں لکھ کر فاروقی نے نہ صرف شعرِ میر کی شرح لکھی بلکہ اس کے طول طویل دیباچوں میں غالب سے میر کی طرف اپنی تقلیب(transformation) کی توجیہ کی اور غالب پر میر کی فوقیت کے اسباب و دلائل وضع و واضح کئے بلکہ ان دیباچوں میں کلاسیکی اردو شعریات کو بھی بڑی حد تک مبرھن کر دیا۔

محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی کی نافذ کردہ مغربی شعریات کے نتیجے میں ہمارے ہاں عام طور پر یہ خیال پیدا ہوچلا تھا شاعری تو صرف وہ ہے جس کی چولیں مغربی تصور شعر پر پوری فٹ ہوں۔ کلیم الدین احمد جیسا باخبر نقاد بھی ابھی اردو غزل کو کو مغربی نظم کے دیدبان سے دیکھنے کی وجہ سے ہی نیم وحشی صنف سخن کہہ بیٹھا۔

 “شعر شور انگیز” کے شاہکار  دیباچوں میں فاروقی صاحب نے برملا یہ اعلان کیا کہ ہمارے ہاں محمد حسن عسکری نے یہ معیار مستحکم اور مبرہن کرکے اردو تنقید پر بڑا احسان کیا ہے کہ

 ‘ہر تہذیب کو اپنے (شعری) معیارات خود متعین کرنے کا حق حاصل ہے’۔

اسی لیے میں کہا کرتا ہوں کہ اگر فاروقی صاحب کے سامنے محمد حسن عسکری کا یہ جملہ نہ ہوتا تو شاید انہیں “شعر شور انگیز ” کی یہ جلدیں لکھنے اور “شاعری ساحری اور صاحبقرآنی” کی صورت میں داستان کی شعریات زندہ کرنے کا خیال نہ آتا۔

ہمارے اکثر بڑے نقادوں نے میر کو صرف “آہ” کا شاعر بناکر اپنے حسابوں اسے ٹھکانے لگا رکھا تھا۔ مگر اپنے دیباچوں میں فاروقی صاحب نے بدلائل واضح کیا کہ میرے کو صرف رونے دھونے والا شاعر سمجھنا نقادی کی توہین ہے۔ انہوں نے اس غلط فہمی کو بھی دور کیا کہ میر صرف محسوسات کا شاعر ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ میر کی فکر جہاں پہنچتی ہے وہاں غالب بھی نہیں پہنچ پاتا۔

بات یہ ہے کہ اپنی بلند فکری میں جہاں غالب محض مجردات گھول کر رہ جاتا ہے وہاں میر فکر کو “محسوسات” میں ڈھال کر خون میں دوڑا دیتا ہے۔

کاش کوئی پبلشر  “شعرِ شور انگیز” کی چاروں جلدوں کے دیباچے الگ سے شائع کردے تو اس سے نہ صرف میر فہمی میں کے در وا ہوں بلکہ ادب کے عام طالب علموں کو کلاسیکی اردو اور سبکِ ہندی کی کی شعریات سمجھنے کا موقع بھی یکجا میسر ہو جائے۔

“تفہیم غالب” اور “شعر شور انگیز” دونوں کہنے کو غالب اور میر کی شرحیں ہیں لیکن بطور شرح یہ مجھے اتنی پسند نہیں جتنی اپنے دیباچوں کی بنیاد پر ہیں۔ ہمارے ہاں غالب کی شرحیں تو بہت لکھی گئی ہیں لیکن میر کی شرح؟ کیا میر بھی ایسا شاعر ہے جس کی شرح لکھی جائے؟ اردو شعرا میں  قابلِ شرح شاعر زیادہ تر غالب اور اقبال ہی سمجھے گئے ہیں۔ ہاں ایک شرح اکبر الہ آبادی کی بھی میری نظر سے گزری ہے جو پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے لکھی ہے لیکن وہ بھی زیادہ تر تلمیحات و مشکلات اکبر کو کھولنے تک محدود ہے۔ میر کو اس انداز سے شرح کے قابل تو کبھی کسی نے سمجھا ہی نہ تھا۔ یہ بیڑہ شمس الرحمٰن فاروقی نے اٹھایا۔

اردو میں اپنے منفرد تصور تنقید کے عین مطابق غالب اور میر کی شرح کرنے میں فاروقی نے اپنا ہی رنگ نکالا ہے۔ غالب اور اقبال کی عام طور پر جو اردو شرحیں دستیاب ہیں ان کے مقابل جب ہم فاروقی کی شرحیں رکھ کے دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک مختلف طریق کار کا احساس ہوتا ہے۔ عام طور پر شرح کے قابل اسی شعر کو سمجھا جاتا ہے جس میں کوئی مشکل خیال مشکل الفاظ میں ادا کیا گیا ہو۔ شارح بس اتنا کرتا ہے کہ پہلے شعر کی مشکل الفاظ اور تلمیحات وغیرہ کی وضاحت کردی اور  شعر کے “مشکل” مفہوم کو اس شعبہ علم کے تاریخی تناظر میں کھول دیا۔ لیکن فاروقی کی شرحوں میں جو شے اس پر زائد ہوتی ہے وہ ہے جسے انگریزی میں “نئی تنقید” والوں نے کلوز ریڈنگ کہا۔ فاروقی کو اردو میں کلوز ریڈنگ کا پہلا بڑا امام کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ “نئی تنقید” والوں نے جو طرز تنقید اختیار کیا تھا وہ شعر و ادب کو گردوپیش کی سیاسی تاریخی سماجی عمرانی اور حتی کہ خود مصنف اور اس کی شخصیت کی تشکیل کرنے والی  نفسیاتی “آلائشوں” سے کاٹ کر ادب پارے کو اس کی فنی جمالیات کے اندر بند ہو کے دیکھنے کا تھا۔ اردو میں اس طرز تنقید کو سب سے زیادہ شمس الرحمن فاروقی نے برت کر دکھایا ہے یہی وجہ ہے کہ تفہیم غالب اور شعر شور انگیز میں ان شعراء کی کی ہوئی ان کی ہوئی شرحیں ہمیں عام شرح نگاری سے بہت مختلف معلوم ہوتی ہیں۔

فاروقی کی طرز تنقید کی انفرادیت قاری پر اس وقت کھلتی ہے جب ہم ان کے تصور تنقید کو محمد حسن عسکری کی تنقید کے مقابل دیکھتے ہیں۔ عسکری کی تنقید کسی ادب پارے یا مسئلے کو اس کے تہذیبی تناظر سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتی۔ ان کے نزدیک کسی شعر کی عظمت کا معیار بیک وقت فنی اور غیر فنی دونوں عناصر پر منحصر ہوتا ہے جب کہ فاروقی کی تنقید اول و آخر ادب پارے کی  بڑائی کا معیار صرف اور صرف فنی جمالیات پر رکھتی ہے۔ وہ شعر کی بڑائی مافیہ یعنی فکر و خیال سے زیادہ معنی و مضمون آفرینی کی جدلیات میں تلاش کرتے ہیں۔ یہی وہ ہے شے جو غالب اور میر کی اشعار کی فاروقی کی شرحوں کو شرح نگاری کے رواجی اور عمومی انداز سے مختلف بناتی ہے۔