گھر واپس جب آؤ گے

یہ تحریر 280 مرتبہ دیکھی گئی

پچھلے برس
جب رختِ سفر باندھا تھا میں نے
ہرے پتوں سے لدے
خوش رنگ پھولوں سے بھرے
درخت، بیلوں نے
اپنی خشبو کی لپٹیں
ہوا کے دوش پر
میری زلفِ سیاہ میں بکھیری تھیں
پرندوں نے محبت کے سریلے گیت
یوں میرے گوش گزار کیے تھے
کہ انکی مٹھاس مانوسیت بھرے
رس گھولتی رہی میرے کانوں میں
شہرِ اجنبی کی انجان گلیوں میں بھی

آج جو لوٹی ہوں گھر کی دہلیز پر
تو خزاں آلود شاموں میں
درختوں کے ہاتھ خالی دیکھتی ہوں
پرندوں کی آواز میں گویا کسی اجنبی زبان کے
مرثیے سنائی دیتے ہوں
گھر کی منڈیر پر
کسی اپنے کی آمدِ خوش کا جشن منانے والا
شاہی پرندہ
میں نے سنا پچھلے ہی کسی مہینے کی
کالی راتوں میں سے ایک رات
اپنے سنگیت سمیت کسی بے نام جہان کی جانب
ہجرت کر گیا ہے

بوڑھے، گنجے درخت
اپنے ہی گھر کے صحن میں
کس قدر اجنبیت سے جھانکتے ہیں ۔ ۔ ۔
نظر چرانے کی لاکھ کوشش کے باوجود
ان پہ پڑے ویران گھونسلوں سے
نگاہیں دو چار ہو ہی جاتی ہیں
مگر آنکھوں میں ایسا سوکھا پڑا ہے
جیسے گھونسلوں میں انکے مکینوں کی عدم موجودگی سے
زندگی کے لمس کی گرمائش کا کال پڑا ہے