گزارش

یہ تحریر 291 مرتبہ دیکھی گئی

یہ کون مجھ کو چُھو رہا ہے دھڑکنوں کی آگ سے
یہ کس کے لَب کی آنچ میرے کان کی لوؤں کو چُھو کے
ڈھل رہی ہے میرے قتلِ عام میں
یہ کون ہے
یہ کس طرح کے آتشیں گُلال کوئی پِیس کر
مرے بدن میں بھر رہا ہے دم بدم
تھرک رہا ہے جاں گُسِل حصار میں رُواں رُواں
سمٹ رہا قدم قدم وجود اپنے آپ میں
جُدا جُدا ہیں ہڈیاں مگر کچھ اس طرح کہ لَمس میری کھال ہو چکا
دریدگی سے پور پور بے مثال ہو چکا
تو روک لو خداۓ جسم و جان کو
خدارا ۔۔ کوئی روک لو
کہ سانس کو جگہ ملے
تپک رہے وجود میں ذرا سی بارشیں گُھلیں،
ذرا سی ٹھنڈکیں ملیں
کہ آنچ کچھ خفیف ہو
نصیب ہو ہمیں جمالِ کم نما
قریب ہو خداۓ نار و زمزمہ