تمہارے پاس پِکاسو، نیرودا، لُورکا پڑے ہیں۔۔۔ فیض و فراز سے تو تُم شروع ہوئے، ...

شاہ زادے ! برف کے گالوں نے اب تک تمہیں چُوم لیا ہوگا گلابوں بھری ...

یہ کون مجھ کو چُھو رہا ہے دھڑکنوں کی آگ سے یہ کس کے لَب ...

کوئی کوئی دِن مشکل ہوتا ہے اتنا جتنا آسمان سے خود بارش برسانے کی خواہش ...

سارے شہر کو تم سے سیکھنی چاہیے تنہائی اور خوبصورتی اور تمہاری طرح بکھر جانا ...

سارے شہر کو تم سے سیکھنی چاہیے تنہائی اور خوبصورتی اور تمہاری طرح بکھر جانا ...

تم نے نہیں دیکھا کہ تمہاری بے التفاتی نے تکلفات کو جنم دے دیا تم ...

تمہیں سونگھنے کے لیے خوشبو کا مہنگا ہو جانا ضروری ہے دنیا کے سستے کولونز ...

کون کون تمہاری خوشبو کو اپنے بدن پر پہن چکا مجھے نہیں معلوم تمہاری پوشاک ...

تم نے نہ جانے کون سے پُل سے مجھے پکارا مجھ سے رُکا نہیں گیا ...