کیا نقاد کا وجود ضروری ہے؟

یہ تحریر 1987 مرتبہ دیکھی گئی

                تنقید میں کوئی کسی کا ہم سر یا سفر ہوتایا ہو سکتا ہے، یہ بات بڑی مشکوک ہے۔بعض لوگ جو نقادوں سے یا تنقیدوں سے ناراض ہیں ، وہ تو یہ کہتے ہیں کہ جس سے تخلیق نہ بن پڑے وہ تنقید کی دکان کھولتا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر ہم سری یا ہم سفری کا کیا سوال؟ اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ۔یہ الگ بات ہے کہ ایسی صورت میں راگ بے سراہوگا، کیوں کہ اگر ڈفلی والا صحیح سر نکالنے پر قادر ہوتا تو خود موسیقار نہ بن جاتا؟تنقید نگاروں کے دل میں یہ خلش بہت دن سے ہے کہ وہ تخلیقی فنکار سے کم تر درجہ رکھتے ہیں۔ اکثر یہ کوشش بھی ہوئی کہ تنقید کو بھی تخلیق قرار دیا جائے۔ مرحوم باقر مہدی نے بہت دن ہوئے بڑے زور شور سے اعلان کیا تھا کہ تنقیدبھی تخلیق ہے۔لیکن ظاہر ہے کہ اگر یہ بات ثابت اور واضح ہوتی تو اسے کہنے یا اس کے بارے میں اعلان نامہ مرتب کرنے کی ضرورت نہ تھی۔کچھ مدت ہوئی ایک مغربی نقاد نے لکھا تھا کہ چونکہ تنقید بھی ادب سے اسی طرح بر سر پیکار ہوتی ہے جس زندگی سے ادب بر سر پیکار رہتا ہے، لہٰذا دونوں ایک ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ تو قیاس مع الفارق والی بات ہوگئی ۔ ادب سے بر سر پیکار ہونا اور زندگی سے بر سر پیکار ہونا الگ الگ چیزیں ہیں۔اور یہ بات بھی ثابت نہیں کہ ادب اور زندگی کے درمیان اسی طرح کی پیکار ہے جیسی پیکار ادب اور تنقید کے مابین ہے۔یہ سب دعوے اورپر جوش تصدیقیں احساس کمتری کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ اور احساس کمتری والے ایک دوسرے کے ہم سفر نہیں، دشمن ہوتے ہیں۔

                میرے دل میں بہر حال اس قسم کا کوئی احساس کمتری نہیں، کوئی شک، کوئی خلش نہیں۔میں تخلیق کو تنقید سے افضل مانتا ہوں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تنقیدی تحریر کی زندگی کئی باتوں پر منحصر ہوتی ہے۔ ان میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تنقید اپنی جگہ پر جامد ہوتی ہے، اس کے معنی زمانے کے ساتھ بدلتے نہیں۔ لیکن تخلیق کی نوعیت حرکی ہے، زمانے کے ساتھ اس کے معنی اور معنویت دونوں بدل سکتے ہیں۔ لہٰذا تنقیدایک محدود کار گذاری ہے، چاہے اس میں کتنی ہی چمک دمک کیوں نہ ہو اور چاہے اس کے بارے میں کتنے ہی جلسے کیوں نہ منعقد ہوں اور کتنے ہی بلند بانگ دعوے کیوں نہ کئے جائیں ، حافظ

                                گوشوار در و لعل ارچہ گراں دارد گوش

                                دور خوبی گذرانست نصیحت بشنو

                لیکن میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ نقاد کے بغےر تخلیق کا بازار بھی مندا ہو جائے گا۔اگر بقول کولرج، تنقید کا کام یہ ہے کہ وہ ہمیں نئی تخلیقات کی خوبیوں کے بارے میں مطلع کرے، تو ظاہر ہے کہ تنقید نگار کی غیر حاضری کانتےجہ یہ ہوگا کہ نئی تخلیق کی خوبیاں نمایاں نہ ہو پائیں گی اور جب یہ صورت حال دیر تک قائم رہے گی تو تخلیق کار کی ہمت پست ہو جائے گی۔ ممکن ہے کہ اس باعث نئی تخلیق کی راہیںہی مسدود ہو جائیں۔ دوسری بات یہ کہ ہر تخلیق، وہ نئی ہو یا پرانی، اپنی جگہ پر نادر اور ایک معنی میں بے نظےر شے ہے۔ نقاد کا کام ہے کہ فن پارے کی ندرت کو درےافت کرے اور بیان کرے اور اس طرح ہمیں بتائے کہ کوئی فن پارہ کس طرح اور کیوں نادرکہا جا سکتا ہے۔اور جب ایک ہی فن پارے کے بارے میںمختلف نقاد مختلف طرح کی ندرتیں ثابت کرتے ہیں تو تخلیقی فن کار کو اپنے امکانات کا پتہ چلتا ہے اور اسے نئے نئے اسالیب اظہارکو ایجاد کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح نقاد کا وجود تخلیقی سر گرمی کی ضمانت ٹھہرتاہے۔

                ایک صاحب نے پوچھا کہ پرانے زمانے میں میر و غالب تھے لیکن نقاد نہیں تھے۔ پھر اس زمانے میں اتنی عمدہ شاعری کیونکر ہوئی اور نقاد آج ضروری کیوں ہوئے؟ یہ سوال بظاہر بہت چبھتا ہوا سا ہے، لیکن اس کے کئی شافی جواب ممکن ہیں۔

                (۱)  پہلی بات تو یہ کہ بہت سے سماجی اداروں کی طرح نقاد بھی ایک سماجی ادارہ ہے۔ اور سماجی اداروں کے ساتھ سب سے بڑی مشکل یہ وابستہ ہے کہ ہر چند وہ انسان ہی کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن جب وہ ایک بار بن گئے توانسان انھیںمنسوخ نہیں کرسکتا۔ اس اصول کا عمل ہم عام زندگی میں ہر طرف دیکھتے ہیں۔ نکاح سے لے کر میونسپلٹی تک لا تعداد ادارے ہیں جو ہم نے بنائے ۔لیکن ہم انھیںمٹا نہیں سکتے، بلکہ منسوخ بھی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا نقادی کاادارہ، یا نقادوں کا حلقہ جب وجود میں آگیا تو آگیا، آپ اسے ختم نہیں کر سکتے۔یہ اور بات ہے کہ آپ نقادوں سے لڑیں، انھیں فضول قرار دیں۔ یااس بات کی چھان بین کریں کہ نقادوں کا حلقہ کب اور کیوں وجود میں آیا؟ لیکن اب، جب یہ اشرار دنیاے ادب میں آگئے تو آگئے۔ یہ قائم رہیں گے۔

                (۲) پہلے زمانے میں بھی نقاد تھے، چاہے وہ باقاعدہ ادارے کی شکل میں نہ رہے ہوں۔دور کیوں جایئے، غالب کے بارے میں مصطفیٰ خاں شیفتہ کا بیان پڑھئے کہ سخن گو تو بہت ہیں، لیکن سخن فہم بہت کم ہیں۔ اور غالنب کا کمال یہ ہے کہ وہ سخن گو بھی ہیں اور سخن فہم بھی۔ بلکہ شیفتہ نے یہ بات کچھ انداز سے کہی ہے گویا وہ سخن فہم کا درجہ سخن گو سے بلند سمجھتے ہیں۔

                (۳) تیسری بات یہ کہ ہر تخلیقی فن کا اپنے طور پر نقاد بھی ہوتا ہے۔ اس کی تنقیدی حس اسے بتاتی ہے کہ جو کچھ وہ لکھ رہا ہے، یا جو متن وہ بنا رہا ہے، وہ فن پارہ کہلانے کے لائق ہے کہ نہیں ۔ اور اگر اس کی بنائی ہوئی چیز فن پارہ ہے تو وہ اچھا یا (شاید) بڑا فن پارہ کہلانے کے لائق ہے کہ نہیں؟تنقیدی شعور کے سوا وہ کیا شے ہے جو تخلیق کار کو اس بات کا جواب فراہم کرتی ہے کہ جو لفظ میں نے یہاں لکھا ہے وہ انھیں معنی ، یا تقریباً انھیں معنی کے حامل فلاں لفظ سے بہتر ہے؟ تنقیدی شعور کے بغےر تخلیقی فن کار کو کس طرح معلوم ہوتا ہے کہ فلاں مضمون، فلاں مضمون سے نادر تر ہے اور فلاں معنی، فلاں معنی سے لطیف تر ہیں؟

                (۴)  چوتھی بات یہ کہ قدیم الایام میں بھی تنقید اور نقاد موجود تھے۔ کم از کم یونان اور چین کے بارے میں تو بے کھٹکے کہہ سکتے ہیں کہ وہاں تنقید اور تخلیق دونوں کم و بیش بیک وقت موجود تھے۔ ہندوستان اور عرب کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں تخلیق کے وجود اور تنقیدکے ظہور کے درمیان زیادہ فصل نہ تھا۔

                (۵)  پانچویں بات یہ کہ ہمارے یہاں شاگرد استاد کا ادارہ موجود تھا (کم از کم اٹھارویں صدی کے آغاز سے) اور استاد کا کام کم و بیش وہی تھا جو آج نقاد کا ہے۔

                (۶)  چھٹویں بات یہ کہ شیفتہ کے بیان میں ایک نکتہ اور بھی ہے:اگر سخن فہم کم ہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ تنقیدی صلاحیت چاہے بالقوت بہت سے لوگوں میں ہو، لیکن بالفعل وہ بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ یعنی ایسے لوگ کم ہیںجواپنی سخن فہمی کا اظہار مدلل اور مربوط زبان میں کر سکیں۔ یعنی تنقید سب کے بس کا روگ نہیں۔ لیکن چونکہ سخن فہمی ضروری چیز ہے اس لئے ہمیں سخن فہموں کو برداشت کرنا چاہیئے، بلکہ اگر ہو سکے تو ان کی ہمت افزائی کرنی چاہیئے۔

                ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر سخن فہمی(یا تنقیدی شعور)کچھ بہت زیادہ عام نہیں ، تو نقاد بھی دنیا میں اسی طرح تنہاہوگاجس طرح تخلیقی فن کار دنیا میں تنہاہوتا ہے اور بسا اوقات مادہ پرست دنیا کے سامنے خود کو پسپا ہوتا ہوا پاتا ہے۔ورڈزورتھ نے غلط نہیں کہا تھا:

                We poets in our youth begin in gladness,

                But thereof in the end comes despondency and madness.

                (ہم شاعر لوگ زمانہ نوجوانی میں مسرت اور انبساط کے ساتھ آغاز کار کرتے ہیں،

                لیکن آخر آخر اسی مسرت اور انبساط سے مایوسی اور دیوانگی جنم لیتی ہیں۔)

اس مایوسی اور دیوانگی کی شکل تنقید میں بھی نظر آتی ہے جب نقاد کہہ اٹھتا ہے کہ” ہزار تجزیہ و محاکمہ کے بعد جو شے بچ رہے وہ شاعری ہے۔“یعنی تخلیق کی اصل روح ہمارے ہاتھ نہیں آتی۔ نقاد محسوس کرتا ہے کہ وہ ہزار سر مارے، ہزار علمیت بگھارے، لیکن وہ فن پارے کی گہرائیوںکو پوری طرح نہیں کھنگال سکتا، اس کی ہر تہ کو کرید نہیں سکتا، اس کی عظمت، رفعت اور حسن کو پوری طرح ظاہر نہیں کر سکتا۔

                اگر نقاد میں انکسار نہ ہو، اگر وہ فن پارے کے سامنے خود کو محجوب اور محدود نہ محسوس کرے تو اچھا نقاد نہیں۔پرانے لوگوں میں ایک بری عادت یہ تھی کہ جب کوئی تحریر ان کے مفروضات پر پوری نہ اترتی تو وہ اسے مسترد کردیتے تھے۔ دوسری خرابی ان میں یہ تھی کہ وہ جس چیز کو سمجھنے سے قاصر رہتے اسے مہمل کہہ دیتے تھے۔اس زمانے میں نقادوں کی بیماری ےاوہ گوئی ہے۔جب کچھ کہنے کو نہ ہو تو انشا پردازی کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے۔اور لاطائل انشا پردازی کے ساتھ جب یہ بھی زعم ہو کہ نقاد کا مرتبہ تخلیقی فن کار سے بالا تر ہے، توناقدین کرام تنقیدلکھنے کے بجاے ہفوات اگلنے لگتے ہیں اورتخلیقی فن کار ہی کو نہیں، عام طالب علم اور قاری کو بھی شکایت بھرے لہجے میں پوچھنا پڑتاہے کہ تنقید اگر یہی ہے تو پھر تنقید کی ضرورت کیا ہے؟

                ہم لوگوں نے جب لکھنا شروع کیا تو تنقیدی تصورات کاگوےا ایک سیلاب تھاجسے ہم نے ہزار طرح کی قید و بند کو توڑ کر ترقی پسند ادب کے دشوار گذار میدان اورتنگ وادیوں میں رواں کیا تھا۔ اس وقت ہر شخص کے پاس کہنے کو کچھ تھا ، اور وہ اسے بڑے زور شور سے کہہ رہا تھا۔ ہمارے پاس بعض نمونے اور مثالیں بھی تھیں۔ بزرگوں میںآل احمد سرور، کلیم الدین احمد، اور محمد حسن عسکری، بعد کے لوگوں میں خلیل الرحمٰن اعظمی تھے، سلیم احمد تھے۔ہم ان سے جھگڑتے بھی تھے اور ان سے محبت بھی کرتے تھے۔ ہم جانتے تھے کہ تنقید تو نام اسی صورت حال کا ہے کہ شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیرہا۔ فن پارے کی کوئی تعبیر حتمی اور آخری نہیںہوتی۔ لہٰذا کوئی تنقید حرف آخر نہیں ہو سکتی۔تنقید کا کام ادبی معےاروںکی روشنی میں ادب کی قدر وقیمت متعین کرنا ہے، اور ”ادب“ سے مراد پورا ادبی سرمایہ ہے۔ہو سکتا ہے کہ تاریخی مطالعے کے دوران ہم ادب کے مختلف ادوار متعین کریں، یا کسی زمانے کے ادب کو قدیم اور کسی کو جدید قرار دیں۔ لیکن جب ادبی تنقید کی بات ہو گی توپھر وہی تنقید کار آمد اور با معنی ہو گی جو پورے ادب سے معاملہ کر سکے۔

                ترقی پسند نظریہ ادب میں سب سے بڑی کمزوری یہی تھی کہ وہ صرف ایک خاص طرح کے ادب سے معاملہ کرسکتا تھا۔ اور جو ادب اس کے تقاضوں پر پورا نہ اترے اس کو برتنے اور سمجھنے سمجھانے کے لئے کوئی اصول اس کے پاس نہ تھے۔ ایسی صورت میں یقیناً تنقید کی ضرورت یا افادیت پر سوال اٹھ سکتاہے۔ اگر کوئی تنقید ہمیں مرثیہ، قصیدہ، مثنوی کا علم نہیں عطا کرسکتی تو وہ تنقید نہ صرف یہ کہ ادھوری رہے گی، بلکہ اس کے بارے میں یہ سوال بھی اٹھے گا کہ ایسی تنقید ہمیںدوسرے قدیم یا جدید اصناف سخن کا بھی علم عطا کر سکے گی کہ نہیں؟

                آج اگر تنقید اور تنقید نگاروں کے بارے میںقاری کے دل میں شکوک ہیں تو اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اکثر نقاد نہ صرف کم علم ہیں اور دوست نوازی کی علت میں مبتلا ہیں، بلکہ یہ بھی ہے کہ ان میں پورے ادب کو برتنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں جب پڑھے لکھے لوگ بھی یہ کہہ کر نکل جاےا کرتے تھے کہ ہمارا پرانا ادب زیادہ تر از کار رفتہ ہے اور ہمارے لئے کوئی دلکشی یا معنی نہیں رکھتا۔ آج کا قاری زیادہ ہوش مند ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ادب گنے کی طرح نہیں کہ جس کی دو چار پوریں کاٹ دیں تب بھی بقیہ گنا میٹھا اور لطف اندوزی کے لائق رہتا ہے۔آج ہم جانتے ہیں کہ ادب ایک تسلسل ہے، اس میں الگ الگ خانے نہیں ہیں جن میں ہم کچھ ڈال سکتے ہیں اور جن سے ہم کچھ نکال سکتے ہیں۔ گذشتہ زمانے کے نقاد مرثیہ اور داستان کے ساتھ انصاف اسی لئے نہ کر سکے تھے کہ وہ غزل اور قصیدے کی شعرےات سے واقف نہ تھے۔آج ہم جانتے ہیں کہ داستان نہ ہو تو قصیدے کے بھی بعض پہلو ہم سے پوشیدہ رہ سکتے ہیں اور مرثیہ نہ ہو تو داستان کے کئی پہلو ہم سے پوشیدہ رہ سکتے ہیں۔

آج اگر نقاد کو اپنے وجود کو ضروری ثابت کرنا ہے تو اسے پورے ادب سے معاملہ کرنے کا فن سیکھنا ہو گا ورنہ ہزار مربیانہ بلند بانگ دعوؤں کے باوجود وہ ادب کی گاڑی کا پانچواں (اور بیکار) پہیہ بن کر رہ جائے گا ۔