شفیع مشہدی کے ڈرامے

یہ تحریر 1808 مرتبہ دیکھی گئی

شفیع مشہدی کے ڈراموں کا مجموعہ’دوپہر کے بعد‘ ایک مدت ہوئی، یعنی ۱۹۸۲میں شائع ہوا تھا۔اب خدا خدا کر کے یہ مجموعہ دوبارہ شائع ہورہا ہے لیکن اس میں کئی نئے ڈرامے بھی ہیں۔اردو میں ڈراما کی کمی ہے،بلکہ دوسرے اصناف میں کثرت دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے یہاں ڈرامے کی کمی نہیں، فقدان ہے۔شفیع مشہدی یوں ہی کچھ بے نیاز قسم کے انسان ہیں، لیکن اپنے ڈراموں کے سلسلے میں ان کی بے نیازی،بلکہ سرد مہری، اردو ادب کے لئے نقصان کا باعث ہورہی ہے۔ شفیع مشہدی میں ڈراما نگار ی کی صلاحیت بخوبی موجود ہے، لیکن پھر بھی وہ اس طرف کم ہی راغب ہوئے ہیں۔

                یہ سوال اکثر اٹھایا گیا ہے کہ ڈرامے کی اصل خوبی کہاں ہے؟کیا اس کی اصل خوبی یہ ہے کہ جب یہ اسٹیج پر دکھایا جائے تواس کی ڈرامائی شان،یعنی ڈراما بطور وقوعہ،ناظر کے دل میں گھر کر لے؟یا اس کی اصل خوبی اس بات میں ہے کہ جب اسے کتاب یا تحریر کی حیثیت سے پڑھا جائے تواس کی ادبی خوبی قاری کو متاثر کرے؟جو نقاد ڈرامے کو اسٹیج کا فن کہتے ہیں، ان کے خیال میں ڈرامے کا ادبی حسن ثانوی اہمیت کی چیز ہے۔بلکہ بعض تو یہاں تک چلے گئے ہیں کہ ادبی حسن ہو یا نہ ہو، ڈراما اگر اسٹیج پر کامیاب ہے تو وہ  ڈرامے کے طور پرکامیاب ہے۔

                اصولی طور پر یہ بات درست معلوم ہوتی ہے،کیونکہ ڈرامے کا کام ہی کسی چیز کو کر کے دکھانا ہے۔لہٰذا اس کی کامیابی یا ناکامی کا سوال اسٹیج ہی پر طے ہو نا چاہیئے۔ سنسکرت میں ڈراما کی نظری تنقید اسی بنیاد پر بنائی گئی ہے کہ ڈرامے کاکام اسٹیج پر کچھ کر کے دکھانا ہے۔ اور جو کچھ دکھانا ہے وہ ایسا ہو کہ ناظر کے دل میں وہی جذبات (رس)پیدا ہوں جو ڈرامانگار کا مقصود تھے۔یہ بات بہت دلکش اور وثوق انگیز معلوم ہوتی ہے۔لیکن اس کی مضمرات میں پیچیدگیاں بھی ہیں جن پر سنسکرت کے نظریہ ساز نقادوں نے بہت گفتگو بھی کی ہے۔مثلاایک سوال یہ ہے کہ ڈرامے کے ذریعہ جو جذبہ ناظر کے دل میں پیدا ہوتا ہے وہ در اصل کون پیدا کرتا ہے؟ یعنی یہ کام ایکٹر کا ہے؟ یا متن ہی میں بذات خود وہ جذبہ موجود ہوتا ہے اور ایکٹر اسے ناظر تک منتقل کر دیتا ہے؟پھر یہ سوال بھی ہے کہ کیا تمام انسانی جذبات انھیں رسوں میں محدودہیں جو ڈرامے کے ذریعہ ہم تک پہنچتے ہیں؟ملحوظ رہے کہ سنسکرت نظریہ سازوں نے جذبات (رس) کی جو فہرست بنائی ہے وہ صرف سادہ جذبات کے امکان کے آگے کسی امکان کو تسلیم نہیں کرتی۔ لیکن ضروری نہیں کہ ہر رس اتنا ہی سادہ اور اکہرا ہو جتنا لفظ ’کرونا‘، یا ’ہاسیہ‘، یا ’شرنگار‘ سے ظاہر ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ دو متخالف رس بیک وقت کہیں موجود ہوں۔ شیکسپئیئر اور یونانی المیہ نگاروں کی روشنی میں ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ کوئی شخص بیک وقت اچھا اور برا،یا محبت کے لائق اورنفرت انگیز ہو سکتا ہے۔

                شفیع مشہدی نے زیادہ تر ڈرامے ریڈیو کے لئے لکھے ہیں، یا وہ پہلے پہل ریڈیو پرکھیلے گئے ڈرامے ہیں۔فنی اعتبار سے ریڈیو ڈرامے اور اسٹیج ڈرامے میں کوئی فرق نہیں،لیکن پیش کردگی میں ریڈیائی ڈرامے کو بہت سی آزادیاں حاصل ہوتی ہیں تو اسے بہت سی تنگیاں بھی جھیلنی پڑتی ہیں۔بہر حال، مشہدی کے کئی ڈرامے ریڈیو اسٹیج کے علاوہ ٹی۔وی۔ اور ڈراما اسٹیج (یعنی رنگ منچ)پر بھی پیش کئے جا چکے ہیں اور بہت کامیاب رہے ہیں۔’مٹھی بھر خاک‘کو تینوں انداز میں کامیابی کے ساتھ پیش کیا جا چکا ہے۔ریڈیو پر، اور ٹی۔وی۔ پر، اور پھر اسکولی اسٹیج پر بھی اسے دکھا یا گیا۔اس کی ٹی۔وی۔ فلم سری نگر کشمیر ٹی۔وی۔ مرکز نے بنائی ہے۔’دوسرا کینسر‘ رانچی ٹی۔وی۔اور موتیہاری ریڈیو پر پیش کیا جا چکا ہے۔’ماڈرن انارکلی‘(اس کا نام مجھے بہت پسند نہیں)پٹنہ ریڈیو سے ڈراموں کے کل ہند مقابلے میں نشر کیا گیا اور دوسرے انعام کا مستحق ٹھہرا۔

                ہم پوچھ سکتے ہیں کہ مشہدی کے ڈراموں کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ یہ تو معمولی بات ہے کہ ان ڈراموں میں موجودہ زندگی کے مسائل کسی نہ کسی نہج سے بحث میں لائے گئے ہیں۔(یہ بات تو کم و بیش کسی بھی ڈرامے کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔)مشہدی کی سب سے بڑی خوبی ان کے مکالموں کی برجستگی اور ان کی زبان کی شستگی ہے۔ کامیاب مکالمے کی دو شرطیں ہیں۔ اول تو یہ کہ ان میں بول چال کے آہنگ کا پورا لحاظ رکھا گیا ہو، اور دوم یہ ان کے ذریعہ کردار کی تصویر کشی از خود ہوتی رہے۔یعنی کردار کے صفات یا جذبات ظاہر کر نے لئے ڈراما نگار کو اسٹیج ہدایات (Stage Direction) درج کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ یہ بات خیال میں رکھنی چاہیئے کہ یہ کام تو ہدایت کار کاہے کہ وہ جذبات کے اظہار کے کردار سے کس طرح کے کام کرنے کو کہے،کس طرح کی حرکات و سکنات کو ظاہر کرنے کی ہدایت کرے، آواز کے اتارچڑھاؤ کے بارے میں بھی ہدایت کا رہی کا حق ہے کہ وہ ایکٹر کی رہنمائی کرے۔شفیع مشہدی کے ڈرامے ان دونوں شرائط کو بوجہ احسن پورا کرتے ہیں۔

                ریڈیو کا وسیلہ استعمال کرنے پر قادر ہونے کی وجہ سے مشہدی نے بعض ایسے طریقے بھی  برتے ہیں جو اسٹیج پر آسانی سے نہیں برتے جاسکت،مثلاًفلیش بیک،یا مناظر کی کثرت، یا مناظر کا جلد جلد تبدیل ہونا۔یہ ہیں تو آسانیاں،لیکن بعض ڈراما نگار ان آسانیوں کی بھول بھلیاں میں گم ہو کر ڈرامے کے تاثر کو مجروح کردیتے ہیں۔شفیع مشہدی کے یہاں یہ بات نہیں ہے۔

                فکشن اور ڈرامے دونوں کی مجبوری یہ ہے انھیں معاصر زندگی سے معاملہ کئے بغیر چارہ نہیں۔لیکن ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ ڈرامے کے ساتھ یہ شرط قدیم الایام سے نہیں ہے۔یونانی ڈرامے سے یہ روایت مغربی ڈرامے میں آئی اور وہاں سے ہم نے اسے حاصل کیا۔قدیم ہندوستانی ڈراما نگار کو آزادی تھی کہ وہ اپنے ڈرامے کو دیومالا پر مبنی کرے،یا کسی لوک قصے پر،یا اپنی طبیعت سے ڈرامے کا پلاٹ بنائے۔ قدیم چینی ڈرامے بھی معاصر زندگی کی عکاسی پر اتنا زور نہیں دیتے تھے جتنا زورآج کل ہمارے یہاں (میری مراد ہے ہندوستانی ڈراما کی دنیا میں)نظر آتا ہے۔ شفیع مشہدی نے معاصر زندگی کے کئی پہلوؤں کی نقاب کشائی اپنے ان ڈراموں میں کی ہے،لیکن انھوں نے اسے کسی شرط کے طور پر نہیں برتا ہے۔یہ ان کے ڈراموں کی بہت بڑی خوبی ہے۔

                کیا میں توقع رکھوں کہ ڈراما نگاری کے تئیں شفیع مشہدی کی سرد مہری اب کم ہو گی اور وہ اردو کو ابھی کئی اور ڈراموں سے مالامال کریں گے؟

شمس الرحمٰن فاروقی

الٰہ آباد،مئی ۲۰۱۶