حضرت مجذوب کی شاعری

یہ تحریر 2647 مرتبہ دیکھی گئی

آپ کے وصال کے بعد حضرت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی کے حلقہء ارادت میں آئے۔ حضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب غوری مجذوب چونکہ اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی کے عاشق زار تھے اس لئے ان کا ذکر میرے خاندان میں اکثر ہوتا تھا۔ اور ہر ذکر کے ساتھ ان کے عارفانہ کلام کا بھی تذکرہ ہوتا تھا۔ چنانچہ حضرت مجذوب کے یہ اشعار بچپن سے میرے حافظے میں پڑے ہوئے ہیں   ؎

ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی

اب تو آ جا اب تو خلوت ہوگئی

دم بھر تو بھلا کوئی ہمیں جی کے دکھا دے

کر لائے ہیں جس حال میں اک عمر بسر ہم

اس ناز سے اس شان سے اس تیز روی سے

گذرو گے تو دنیا ہی سے جائیں گے گذر ہم

ارے اک نظر اس طرف بھی خدا را

بہ پاس مروت بہ نام محبت

لڑکپن میں ہم عشق کا کھیل کھیلے

وہ تتلا کے کہنا الے لے الے لے

 مجذوب صاحب کے بارے میں دوسری بات جوبہت بچپن سے میرے کان میں پڑی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ آپ ڈپٹی کلکٹر تھے، لیکن اس خدشے کی بنا پر کہ کہیں خلاف شرح فیصلے نہ دینے پڑیں،آپ نے اپنا تبادلہ محکمہء تعلیمات میں کرا لیا اور وہیں سے انسپکٹر آف اسکولس کے اعلیٰ عہدے سے وظیفہ یاب ہوئے۔ لیکن یقین ہے کہ اگر وہ ڈپٹی کلکٹری نہ چھوڑتے تو کسی اور بھی بلند عہدے سے وظیفہ یاب ہوتے۔ ڈپٹی کلکٹری اس زمانے میں اگر بادشاہت نہیں تو نوابی ضرور تھی۔ اور شاید یہ بھی ممکن تھا کہ انسان ڈپٹی کلکٹر وغیرہ رہتے ہوئے پابندیِ شرع کے ساتھ زندگی گذار لے جائے۔ لیکن حضرت مجذوب کی طبیعت میں احتیاط اس قدر تھی کہ انھوں نے اتنی بڑی نوکری بخوشی چھوڑ کر کمتر درجے کی نوکری پر قناعت کی۔

یہ بات اپنی جگہ پر اہم ہے کہ انسان سید الانبیاء علیہ السلام اور ان کی شریعت سے اس قدر محبت رکھے کہ ہر ہر قدم پر عزم و احتیاط سے کام لے کہ کہیں کوئی قدم ذرا سا بھی جادہء شریعت سے متجاوز نہ ہونے پائے۔ میں نے خود اپنے خاندان میں ایسی احتیاط کی مثالیں دیکھی ہیں۔ میرے والد مرحوم کے سب سے بڑے بھائی حاجی حافظ محمد طہ مرحوم جو حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی کے خلیفہء مجاز صحبت ہوئے، انھوں نے بھی پولیس محکمے کی کوتوالی چھوڑ کر کورٹ انسپکٹری اختیار کی۔ کہا جاتا ہے کہ پولیس انسپکٹری اور کوتوالی کے زمانے میں، جیسا کہ عام طور پر طریقہ تھا،وہ بس یا ریل میں بلا ٹکٹ سفر کر لیا کرتے تھے۔ اب،جب وہ تائب ہوئے تو سوچ سوچ کر ایسے تمام اسفار کی رقم کے برابر ٹکٹ خرید کر ضائع کئے تاکہ حق العباد کی ادائگی میں کمی نہ رہ جائے۔ رشوت وغیرہ لینے کا خیر کوئی سوال کبھی تھا ہی نہیں۔ میرے ایک اور بڑے باپ حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن صاحب بھی حضرت تھانوی کے مرید تھے اور ان کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ اپنے بڑے بھائی جناب عبداللہ فاروقی صاحب مرحوم کے مہمان ہوتے تو ان کے یہاں کھانا نہ کھاتے کیوں کہ عبداللہ فاروقی صاحب پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے اور مولانا فضل الرحمن صاحب کی نظر میں ان کی آمدنی مشکوک تھی۔

یہ سب باتیں تو ٹھیک ہیں، لیکن میرے متذکرہ بالا بزرگوں میں احتیاط کے ساتھ ساتھ تقشف بہت تھا۔ یعنی وہ کوئی ایسا کلام منھ پر شاذ ہی لاتے تھے جس میں کچھ شوخی کا پہلو ہو۔ حضرت مجذوب کے جو اشعار میں نے اوپر نقل کئے،وہ میں نے ان کی زبان سے نہیں بلکہ اوروں کی زبان سے سنے تھے۔ حضرت مجذوب کی شخصیت کا یہ پہلو انتہائی غیر معمولی ہے کہ ان کے مزاج میں عاشقانہ شوخی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ سلوک کے معاملات کے بیان میں بھی شوخ اور عاشقانہ اور رنگین اسلوب اختیار کرتے تھے۔ شریعت کے معاملات میں ان کی حد درجہ احتیاط اور شعریت کے معاملات میں ان کی حد درجہ مجذوبیت اور رنگینی ایک دوسرے کا جواب کہی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی ان کے احوال سے واقف نہ ہو اور ان کا کلام پڑھے تو اسے جگہ جگہ گمان گذر سکتا ہے کہ میں جگر مرادآبادی کی طرح کے سرمست اور سر جوش شاعر کا کلام پڑھ رہا ہوں، لیکن اس امتیاز کے ساتھ کہ جگر صاحب کے یہاں کئی اشعارزبان و بیان کی تمام خوبصورتی کے باوجود استناد کے درجے سے گرے ہوئے ہیں۔اس کے برخلاف،مجذوب صاحب کا کلام پوری طرح استادانہ اور فنی لغزشوں اور عیوب زبان و بیان سے بالکل خالی ہے۔ زبان کی چستی، محاورے کی درستی اور روز مرہ پر قابو کے اعتبار سے ان کا کلام بیسویں صدی کے ربع اول کے کسی بھی استاد کے کلام سے کم نہیں۔ خواہ وہ عزیز وصفی ہوں یا یگانہ و حسرت، کسی کے بھی مقابل مجذوب صاحب کا کلام رکھ دیجئے تو سرمستی اور عاشقانہ محویت اور واردات نگاری کے اعتبار سے ان کا کلام برتر نکلے گا اور زبان و بیان کے اعتبار سے ان میں سے کسی کے بھی کلام سے کمتر نہ ٹھہرے گا۔

حضرت مجذوب نے اپنی زندگی حضرت سرور کائناتؐ کی محبت، اپنے شیخ سے مکمل ارادت اور اپنی شاعری سے مکمل مجانست کے ساتھ گذاری۔ شعر کہنے اور شعر پڑھتے وقت ان پر جذب و حال کی جو کیفیت طاری ہوتی تھی اس کی مثال اردو کیا فارسی شاعری میں بھی مشکل سے ملے گی۔ اگر انھوں نے شاعری کو اپنے متصوفانہ مشاغل پر مقدم رکھا ہوتا تو ان کا نام آج بے تکلف بیسوی صدی کے نصف اول کے بڑے شعرا میں شامل ہوتا۔ ان کی پرگوئی اور بے تکلف غزل در غزل کہنے کے انداز ناسخ، آتش، اور امیر مینائی جیسے اساتذہ کی یاد دلاتے ہیں۔ امرألقیس نے ایک جگہ لکھا ہے کہ قافیے میرے سامنے یوں ہیں جیسے کسی بچے کے سامنے ٹڈیوں کا دل،کہ وہ ایک کو پکڑتا ہے تو دو ہاتھ سے نکل جاتی ہیں۔ بے تکلف کہا جا سکتا ہے کہ اشعار کی آمد کی حد تک مجذوب صاحب پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔ ان کا دیوان کہیں سے بھی کھولئے، پہلی چیز جو متاثر کرتی ہے وہ جذب و مستی ہے اور پھر مکمل آمد کی کیفیت۔ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ان اشعار کو نظم کرنے والا وزن یا ردیف و قافیہ کی پابندی کا بھی قائل ہوگا۔ لیکن حقیقت ایسی ہی ہے۔ ان کی ظریفانہ نظم ”مسٹر اور ملا کی نوک جھونک“ ایک زمانے میں بہت مشہور ہوئی۔ اس میں کوئی چھ سو شعر ہیں اور زمین و بحر سودا کے ایک مشہور قصیدے کی ہیں۔ کہیں سے بھی صفحہ کھول لیجئے، حیرت ہوتی ہے کہ پردہء نسواں کی حمایت جیسے آسان موضوع پر کوئی شخص علم اور خوش طبعی اور طنز کو اتنی خوبی سے اتنی طویل نظم میں نبھا سکتا ہے   ؎

عجب الٹی ہیں عقلیں اور عجب الٹا زمانہ ہے

کہ فوقانی تو تحتانی ہے تحتانی ہے فوقانی

سفید اب کر لیا ہے عورتوں نے بھی لباس اپنا

سراپااب ہے خر مہرہ جو تھی یاقوت رمانی

یہی آخر میں بس طے ہے نئی دنیا کی ہر شے ہے

زباں کیوں اس کے درپے ہے کہ یہ قصہ ہے طولانی

ارے ثابت نہ کربے پردگی میں دل کے پردے کو

چھپے گا چادر مہتاب میں کیا ماہ نورانی

غزل کی شاعری کی ایک خاص صفت یہ ہے کہ اس میں دونوں طرح کے مضامین،یعنی عشق حقیقی پر مبنی مضامین اور عشق مجازی سے متعلق مضامین کو بیان کرنے کے لئے ایک ہی طرح کے استعارے، تراکیب اور الفاظ بکار لائے جاتے ہیں۔ لیکن دونوں کے درمیان لہجے اور اسلوب کا نازک فرق اکثر برقرار رہتا ہے۔ ناتجربہ کاراور عدم احتیاط پسند طبیعتیں اس نازک فرق کو ملحوظ نہیں رکھتیں اور اسی وجہ سے شعر کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اردو کے مشہور انگریز عالم رالف رسل نے تو لکھا ہے کہ غزل کا ہر شعر عارفانہ اور غیر عارفانہ تعبیر کا متحمل ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ اس بات کو نظر انداز کر گئے کہ لہجے اور اسلوب کی نزاکت ایک غیر مرئی حد فاصل ہے جسے وہی شاعر محسوس کر سکتا ہے اور اس کو ملحوظ رکھ سکتا ہے جو نہ صرف یہ کہ غیر معمولی طور پر مشاق،بلکہ فارسی اور اردو غزل کا پوری طرح مزاج شناس بھی ہو۔ حضرت مجذوب کے کلام میں ان کے تخلص کی مناسبت سے جذب اور از خود رفتگی تو ہیں ہی، لیکن اس کے علاوہ زبان کی صفائی اور احساس کی شدت اس قدر ہے کہ ان کے کلام میں بہ یک وقت کمال اور حکمت کی صفات پیدا ہوگئی ہیں۔

آج کل کے شاعر اس بات کو نہیں سمجھتے کہ شاعر کی ترقی کے دو مدارج ہوتے ہیں۔ پہلا مدرجہ حکمت کا ہے۔ جب شاعر علوم عقلیہ و نقلیہ میں یک گونہ مہارت حاصل کر لیتا ہے اور معاملات دنیا و دین کے باریک امتیازات کو سمجھنے لگتا ہے تو کہا جاتا تھا کہ اسے ”حکمت“حاصل ہو گئی ہے۔ اس کے بعد دوسرا مدرجہ”کمال“ کا تھا۔ یعنی جب شاعر اپنی وہبی اور اکتسابی حکمت کو شعر کی زبان میں ادا کر نے کے لائق ہو جاتا تو کہا جاتا کہ اب وہ ”درجہء کمال“ کو پہنچ گیا ہے۔ پرانے کسی شاعر کا کلام اٹھا کر دیکھ لیجئے، لوح تاتمت معیار میں یکسانی نظر آئے گی۔ میر کی عمر شعر گوئی ستر برس سے متجاوز تھی۔ لیکن ان کے دیوان اول میں جو حسن اور زور ہے، وہی ان کے دیوان ششم میں بھی ہے۔ کم لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ جن غزلوں نے غالب کو غالب بنایا،ان کی کم از کم ستر فیصدی تعداد غالب نے اکیس بائیس برس کی عمر تک کہہ لی تھیں۔ میر انیس کے مراثی کو دیکھئے، یہ فرق کرنا غیر ممکن ہے کہ کون سا مرثیہ اوائل عمر کا ہے اور کون سا مرثیہ ان کے آخری زمانے کا۔ وجہ یہی ہے کہ یہ لوگ میدان شعر میں تب اترتے تھے جب وہ ”حکمت“اور ”کمال“ دونوں صفات سے متصف ہوچکے ہوتے تھے۔ آج کل کے شعرا کے دیوان دیکھئے تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ اوائل عمر کی شاعری میں نو مشقی اور خام کاری نمایاں ہے، اور شاعر کی عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے کلام میں بھی اس کی صلاحیت کے موافق پختگی اور بہتری آتی رہتی ہے۔

حضرت مجذوب کا کلام شروع سے آخر تک یکساں ہے،اور اس اعتبار سے ان کے دیوان کو اساتذہء قدیم کے دواوین سے مشابہ قرار دینا چاہئے۔ حیرت ہوتی ہے کہ معاملات سلوک، سرکاری نوکری کی ذمہ داریوں اور دنیا کے روز مرہ کاموں میں مصروفیت کے باوجود مجذوب صاحب کا کلام کہیں سے بھی نومشقی یا خام کاری کا پتہ نہیں دیتا۔ مشکل سے مشکل زمینوں میں طویل سے طویل غزلیں اور نعتیہ نظمیں بھی روانی اورشستگی میں سادہ روز مرہ پرمبنی غزلوں سے بالکل مختلف نہیں معلوم ہوتیں۔ مثلاً یہ چندشعر ایک طویل دو غزلے سے لئے گئے ہیں۔ردیف بظاہر آسان ہے لیکن قافیے نے اسے مشکل کر دیا ہے   ؎

جنون عشق یہ اللہ رے تیری یک رنگی

کچھ امتیاز بہار و خزاں نہیں ہوتا

ہمیشہ رہتا ہے اک عالم فنا طاری

میں زندہ ہوں مگر احساس جاں نہیں ہوتا

ان دونوں اشعار میں ردیف مذکر ہے (نہیں ہوتا) لیکن قافیہ مونث (خزاں، جاں) اور دونوں قافیے اس خوبصورتی سے نبھائے گئے ہیں کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ان کو نظم کرنے میں کیا کمال برتا گیا ہے۔ اب دو اور قافیے دیکھئے   ؎

کہا جو میں نے کرم مہرباں نہیں ہوتا

کہا بگڑ کے اجارہ ہے ہاں نہیں ہوتا

شب وصال سر شام ہی سے رٹ ہے انھیں

یہ آج کیا ہے کہ وقت اذاں نہیں ہوتا

دوسرے شعر کی مضمون آفرینی قابل داد ہے لیکن قافیے بھی کیا خوب گل کھلا رہے ہیں۔ اس کے بعد ہی ایک دو غزلہ ہے۔ جس کی دوسری غزل میں بارہ مطلعے ہیں اور سات شعر۔ قافیے پچھلی ہی غزل جیسے ہیں لیکن ردیف نہایت ٹھس، یعنی ”تھا“۔ اب دو شعر دیکھئے   ؎

ہوئی تجویز وہ مٹی پئے خلق دل وحشی

کہ جس مٹی کے ہر ذرے میں مضمر اک بیاباں تھا

نمونہ راز وحدت کا مرا حال پریشاں تھا

کہ مشکل امتیاز دامن و جیب و گریباں تھا

یہ قافیے عام طور پر اتنی صفائی سے نہیں بندھ سکتے خاص کر کہ جب مضمون اس قدر باریک نکات عشق پر مبنی ہو۔ میر کی ایک مشہور غزل کا مطلع ہے   ؎

پھوٹا کئے پیالے لنڈھتا پھر اقرابہ

مستی میں میری تھا یاں اک شور اور شرابا

میر کی غزل ان کے زمانہء نوجوانی کی ہے اور اس کے بعض شعر زباں زد خلائق ہیں۔ لیکن اسی بحر میں اور مطلعے ہی کے رنگ کے چند شعر مجذوب صاحب کے ملاحظہ ہوں   ؎

محفل میں تیری سب کے ارماں نکل رہے ہیں

سالک ابل رہے ہیں مجذوب اچھل رہے ہیں

دیکھ اہل ضبط مطرب پہلو بدل رہے ہیں

کوہ گراں بھی اپنی جگہوں سے ٹل رہے ہیں

ہم اس گلی میں اے دل چلنے کو چل رہے ہیں

ادنیٰ خطا پہ لیکن عاشق نکل رہے ہیں

عشاق تو ہوئے ہیں پروانہ وار سوزاں

مانند شمع وہ بھی محفل میں جل رہے ہیں

تم دیکھنا یہ چپ بھی لاتی ہے رنگ کیا کیا

سانچے میں میرے دل کے مضمون ڈھل رہے ہیں

مجذوب نے جو بڑ میں دو لفظ بھی نکالے

برسو ں وہ سالکوں میں ضرب المثل رہے ہیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر مجذوب صاحب نے دنیا کے سامنے خود کو شاعر کے طور پر پیش کیا ہوتا تو اس غزل کے بھی کئی اشعار ضرب المثل ہو جاتے۔ میر نے بھی شاید اسی کیفیت سے مغلوب ہو کر کہا تھا   ؎

مطرب نے پڑھی تھی غزل اک میر کی شب کو

مجلس میں بہت وجد کی حالت رہی سب کو

پھر تے ہیں چنانچہ لئے خدام سلاتے

درویشوں کے پیراہن صد چاک قصب کو

مصلح امت عارف باللہ حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب علیہ الرحمہ نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک بزرگ پر اکثر حالت جذب طاری رہتی تھی اور اس عالم میں وہ رقصاں ہو جاتے اور عارفانہ کلام پڑھتے تھے۔ ان کے ایک مرید کے دوست ان کی اس خصلت کا مذاق اڑاتے تھے اور جب ملاقات ہوتی تھی تو یہ فقرہ ضرور کہتے تھے کہ ”تمھارے نچنیا پیر کیسے ہیں؟“ وہ اس بات پر بہت آزردہ ہوتے لیکن خاموش رہتے۔ لیکن ایک بار تنگ آکرانھوں نے شیخ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا حضرت وہ صاحب ایسا ایسا کہتے ہیں،میں کیا کروں؟ شیخ نے جواب دیا کہ ”اچھا اب کی بار پوچھیں تو جواب دے دینا کہ انھوں نے کہا ہے کہ کوئی نچاتا ہے تو ہم ناچتے ہیں۔“ مرید صاحب نے ایسا ہی کیا اور شیخ نے وہ فقرہ کچھ اس جذب و توجہ کے عالم میں کہا تھا کہ مرید صاحب کے دوست پر بھی وہی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ خودسر بازار رقصاں ہوکر شیخ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ حضرت مجذوب کا کلام پڑھئے تو جگہ جگہ محسو س ہوتا ہے کہ اس کیفیت جذب و شوق کہ ”کوئی نچاتا ہے تو ہم ناچتے ہیں“ کا اظہار دیوان میں عجب عارفانہ قوت کے ساتھ ہواہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں   ؎

جب کسی سے لو لگا لی جائے گی

تب یہ آشفتہ خیالی جائے گی

زاہدوں پر مے اچھالی جائے گی

جان ان مردوں میں ڈالی جائے گی

بے سوالی کی نہ خالی جائے گی

دل کی بات آنکھوں سے پا لی جائے گی

لاکھ ہو بحر محبت پر خطر

کشتی دل اس میں ڈالی جائے گی

یاد تیری بڑھتے بڑھتے ایک دن

تا بہ حد بے خیالی جائے گی

جناب مجذوب کا ذکر نکلے تو یہ ممکن نہیں کہ ان کے کلام کے ایک مداح اور بقیۃ السلف شیخ المشائخ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب المتخلص بہ احمد پرتابگڈھی کا ذکر نہ آئے کہ وہ خود بھی عارفانہ شعر گوئی میں اعلیٰ ترین مرتبے کے استادوں میں شمار ہونے کا حق رکھتے ہیں۔ مدت ہوئی میں نے حضرت کے مجموعہء کلام ”عرفان محبت“ پر اپنی حقیر تحریر میں لکھا تھا کہ حضرت احمد پرتابگڈھی کا کلام بظاہر فنی پیچیدگیوں سے عاری ہے اور بے پناہ آمد کا تاثر پیدا کرتا ہے۔حضرت مجذوب کے یہاں بھی بے پناہ آمد کا تاثر ہے لیکن ان کی شوخیِ طبیعت انھیں غزل کی رنگینیوں کی کئی راہوں کی سیر کراتی ہے۔ حضرت مولانا احمد پرتابگڈھی کے یہاں کیفیات و واردات کا براہ راست بیان ہے۔ اس بنا پر قاری یا سامع کیفیات کے لطف یا علو ے مرتبت میں گم ہو جاتا ہے اور شعر کی فنی نزاکتوں کی طرف فوراً متوجہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر آپ کا شعر ہے   ؎

اسے نسیان کامل غیر سے واللہ ہوتا ہے

عجب کچھ شان دیکھی میں نے بیمار محبت میں

اس شعر میں لفظ”غیر“ کے ساتھ ”واللہ“عجب لطف رکھتا ہے، کیونکہ نسیان کامل تو غیر سے ہے اور توجہ پوری الیٰ اللہ ہے۔ ایسے موقعے پر اللہ کی قسم کھانا کمال بلاغت ہے۔ حضرت مجذوب کے یہاں مغلوب الحالی کی کیفیت ہے جس بنا پر ان کے شعروں میں حضرت احمد پرتابگڈھی کے اشعار کی سی باریکی کم نظر آتی ہے۔ حضرت احمد کے یہاں فنا فی اللہ سے لے کر سیر فی اللہ تک کے مراتب اس قدر سادہ بیان میں نظم ہوئے ہیں کہ جگہ جگہ حضرت شاہ نیاز بریلوی کی یاد آتی ہے۔ مثلاً ان کے ساقی نامے کے کچھ شعر ہیں   ؎

مقام عشق ہے سمجھے گا اس کو راز داں ساقی

میں وہ میخوار ہوں جس کا ہے اب سارا جہاں ساقی

سناتا میں بھلا کیا عشق کی یہ داستاں ساقی

پس پردہ کوئی رہتا ہے ہر دم نغمہ خواں ساقی

کوئی اس لطف کو احمد سے پوچھے کوئی کیا جانے

کبھی ہے میہماں ساقی کبھی ہے میزباں ساقی

ان دونوں حضرات کے یہاں جلوؤں کی جو فراوانی ہے وہ بیشک اللہ کے کرم اور ان بزرگوں کے فیض کے باعث ہے جن سے انھیں تعلق رہا ہے۔ حضرت مجذوب سے ایک صاحب نے جب اصلاحی تعلق قائم کرنے کی درخواست کی تو آپ نے کیا عمدہ بات کہی کہ   ؎

نقل ارشادات مرشد می کنم

انچہ مردم می کند بوزینہ ہم

اصل کی برکت سے لیکن کیا عجب

نقل سے بھی ہو وہی فیض اتم

اللہ سے دعا ہے کہ یہ چند ژولیدہ کلمات جو میں ان دو بزرگوں کی شان میں رقم کئے اور اس غرض سے ان کے اشعار نقل کئے تو اصل کی برکت اس نقل میں بھی آجائے۔ آمین۔

۱۵جون۲۰۱۰                                                                           

   شمس الرحمن فاروقی            

جون ۲۰۱۰