طہور منصوری نگاہ کی تازہ رباعیاں

یہ تحریر 2180 مرتبہ دیکھی گئی

رباعی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اچھے اچھوں کا امتحان لے لیتی ہے۔ میں ایسے شعرا سے واقف ہوں۔ جو رباعی کے میدان میں قدم رکھتے ڈرتے تھے کہ کہیں وزن کی غلطی نہ ہوجائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ رباعی کا کوئی وزن ایسا نہیں ہے جسے کوئی شاعر آسانی سے برت نہ سکتا ہو۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ شعر اردو کے آہنگ سے، اور کھڑی بولی کے امکانات سے واقف ہو۔ ہمارے سوامی شیامانند سرسوتی روشن مرحوم تو اٹھتے بیٹھتے رباعی کہتے رہتے تھے اور لطف یہ کہ ان کی ہر رباعی مربوط، نکھ سکھ سے درست ہوتی تھی۔ اور وہ رباعی کے کسی وقن میں بند نہ تھے۔ ان کی اس صفت کے چشم دید گواہوں میں طہور منصوری نگاہ بھی شام ہیں۔

طہور منصوری کو رباعی کہتے کم و بیش تین دہائیاں ہو چکی ہیں اور وہ اس میدان میں اپنے قدم اچھی طرح جما چکے ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد آتا ہے وہ خالص رباعی گو ہیں، یعنی انھوں نے کسی اور صنف میں تو اپنی قوتوں کا اظہار نہیں کیا ہے۔ غزل کی بظاہر لازوال مقبولیت کو نظر میں رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے زمانے میں رباعی اب صرف چند شعرا کے حصے میں نہیں رہ گئی اور وہ صورت حال تو اب بالکل نہیں رہی کہ شعرا اپنے دیوان کے آخر میں چند رباعیاں درج کرکے مطمئن ہوجاتے تھے کہ ہم نے تو رباعی کا حق ادا کر دیا اب تو رباعی کے دیوان پر دیوان شائع ہونے لگے ہیں جناب شاہ حسین نہری نے اس میں اولیت کا حق حاصل کیا ہے، لیکن رباعیوں پر مشتمل پورے پورے مجموعے تو اب متداول ہوگئے ہیں۔ سید وحید اشرف، امیر چند بہار اور کئی دیگر شعرا نے کثرت سے رباعیاں کہیں ہیں۔ اب طہور منصوری نگاہ کا نام بھی ان کی صف میں شامل ہے۔

ایک زمانے میں خیال تھا کہ رباعی صرف حکیمانہ اور متصوفانہ مضامین کے لئے موزوں ہے۔میر، مصحفی اور پھر غالب نے رباعی کے مضامین میں بہت اضافہ کیا، لیکن یہ خیال پھر بھی عام رہا۔ یگانہ صاحب نے رباعی مین اپنے رنگ بھرنے کی وکشش کی لیکن ان کا کوئی رنگ چوکھا نہ اترا۔ بعد میں فراق صاحب نے عشقیہ رباعیاں کہیں جنھیں انھوں نے ’شر نگار رس کی رباعیاں‘ کہا۔ جاں نثار اختر نے اس لے کو آگے بڑھاتے ہوئے گھریلو معاملات اور زو شوہر کے تعلقات کا مضمون اختیار کرکے رباعی کے مضماین کو اور بھی وسعت دی۔ عبدالعزیز خالد نے عربی اور فارسی پر اپنی قدرت کے بل بوتے پر رباعی کو اس کے قدیم پرشکوہ آہنگ سے دوبارہ روشناس کیا۔ فراق صاحب اور جاں نثار اختر کی مساعی اس قدر مقبول ہوئیں کہ اب ہر رباعی گو شاعر دوچار رباعیاں ان کے انداز میں کہنا ضروری سمجھتا ہے۔ طہور منصوری نگاہ اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں لیکن ان کی زیر نظر رباعیوں میں کئی باتیں اور بھی ہیں جو توجہ کو انگیخت کرتی ہیں۔ اور یہ بات بھی ہے فراق اور جاں نثار اختر کی بنائی ہوئی راہ کو بھی انھوں نے محض شوقیہ نہیں اپنایا، بلکہ بیان کے انداز میں اعتدال اور جذبے کے اظہار میں ایک ربودگی اور خود سپردگی کو اختیار کیا   ؎

اسرار جہاں کھول رہا ہے کوئی

کانوں میں رس گھول رہا ہے کوئی

سناٹے کاراج ہے ہر سو لیکن

دھڑکن میں کہیں بول رہا ہے کوئی

……………………

کیسی دولت اور کہاں کا افلاس

کیا خوشیاں، کیا غم، کیسی آس نراس

جینے کے لئے یہی بہت کافی ہے

دو وقت کی روٹی ہو ساجن ہوں پاس

ان دونوں رباعیوں میں جذبے کو ہاتھ سے بے ہاتھ نہیں ہونے دیا گیا ہے۔ یہاں شاعری بھی ہے اور انسان کاروبار بھی۔ رباعی کے میدان میں ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ک شاعر دل کی دنیا اور دل کے باہر کی دنیا سے پوری طرح واقف ہو۔ طہور منصوری نگاہ نے اس اندازہ کو اور بھی لہجوں اور مضامین میں نباہا ہے    ؎

سوئی ہوئی خوشبو نہ جگانا سن لو

پژمردہ گلوں کو نہ کھلانا سن لو

اس شہر میں جب تک ہے تقرر میرا

آنا بھی اگر ہو تو نہ آنا سن لو

سبحان اللہ، مصرعوں کی روانی، لہجے میں غصہ بھری بیچارگی، کچھ تلخی محزونی، چوتھے مصرعے میں کثرت معنی، اور ان پر مستزاد تیسرے مصرعے میں شہر میں نوکری کا ذکر، دو دنیائیں کس خوبی سے اورکس بلندی پر جا کر ضم ہو گئی ہیں۔

مستزاد کالفظ اثنائے کلام میں آگیا ہے تو طہور صاحب کی رباعیات مستزاد کا بھی ذکر کرتا چلوں۔ مستزاد رباعی کا چلن ہمارے ہاں کم رہا ہے۔ درد کے علاوہ مجھے کوئی پرانا شاعر یاد نہیں آتا جس نے مستزاد رباعیاں کہی ہوں۔ طہور منصوری نگاہ نے کئی مستزاد رباعیاں کہی ہیں۔ اگرچہ وہ ہر جگہ یکساں کامیاب نہیں ہوئے ہیں، لیکن یہ شرف بھی کیا کم ہے کہ انھوں نے اس مشکل طرز کو باربار اپنایا ہے۔ ایک نہایت عمدہ رباعی مستزاد ملاحظہ ہو    ؎

کچھ رہا نہ منزل کا نشاں جانے وہ  اندھا ہے سفر

رہبر کی نہ رہزن کی زباں جانے وہ بے عقل و ہنر

تخریب یقینی ہی سمجھئے دل کی اب کیا کہیے

پتھر ہیں جسے کاہکشاں جانے وہ بے ذوق نظر

مضمون بیک وقت عشقیہ بھی ہے اور عارفانہ بھی۔ اس طرح یہاں بھی دو دنیائیں یکجا نظر آتی ہیں۔ بعض رباعیوں میں عہد حاضر کا انسان اپنے گریبان میں جھانکتا اور کف افسوس ملتا نظرآتا ہے۔ ایسی رباعیاں الگ ہی شان رکھتی ہیں    ؎

یہ چین یہ آرام بھلا ہے بس

یہ مہر و وفا صرف دکھاوا ہے بس

زلفوں کا یہ سایہ یہ ترے قرب کا جام

ہم خوب سمجھتے ہیں چھلاوا ہے بس

طہور منصوری نگاہ کی ایک کمزوری کی طرف بھی اشارہ کرتا چلوں، اور وہ اس لیے بھی کہ اج کل اکثر شاعر و افسانہ نگار اس کے شکار معلوم ہوتے ہیں۔ طہور صاحب کو بھی اس بات کی فکر ہے کہ ’حالات حاضرہ‘ اور ’معاملاتِ موجودہ‘ پر بھی خیال فرسائی کی جائے۔ اپنی جگہ پر یہ کچھ ایسی بری بات بھی نہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ ٹی وی اور انٹر نیٹ کے وفور نے اہم اور غیر اہم، بامعنی اور بے معنی، عارضی اور مستحکم ان کے درمیان دوری اتنی کم کردی ہے کہ بسا اوقات تو امتیاز ہی مٹتا نظر آتا ہے۔ ایسی صورت میں جب یہ باتیں شعر و افسانہ میں آجائیں تو دل چاہتا ہے کہ ہم دو میں سے ایک سے بے نیاز ہو جائیں: یا تو شعر و ادب کو چھوڑ یں یا ٹی وی اور انٹرنیٹ کو خدا حافظ کہیں۔ بظاہر ’حقیقی‘ دنیا اور تخیل کی دنیا میں فاصلہ نہ رہے تو تخیل کی دنیا کا نقصان ہوتا ہے۔

اب ایک اور رباعی سن لیجئے۔ تلخی، بے چارگی اور اپنے کیے پر ماتم اور زندگیکے ختم ہونے کا رنج اور مسرت دونوں کی یکجائی، یہ سب ایک رباعی میں مشکل سے ملیں گے   ؎

زندانِ تمنا سے رہائی کا ہے وقت

کرتوتوں کی اپنے صفائی کا ہے وقت

تاعمر تو اس دل نے جلایا ہی مجھے

اب موت پہ آیا کہ بدھائی کا ہے وقت

اس مختصر سے مجموعے میں ایسی رباعیاں بہت ہیں، مبارکباد۔

آخر میں یہ کہتا چلوں کہ آج کے عام رباعی گویوں کے برخلاف طہور منصوری نگاہ نے رباعی کے کم و بیش تمام اوزان کو اختیار کیا ہے۔ جو رباعیاں میں نے اس مضمون میں نقل کیں، ان میں بھی ایسے اوزان موجود ہیں جن سے اردو کے رباعی گو دامن بچاتے رہے ہیں۔

  شمس الرحمٰن فاروقی