دیباچہ: ’افلاک‘

یہ تحریر 2091 مرتبہ دیکھی گئی

یوں تو برصغیر کے ہر شہر بلکہ ہر قصبے میں دو چار سوار دو کے شاعر اور ادیب مل جائیں گے، لیکن گلبرگہ کی بات پھر بھی نرالی ہے۔ خواجہ بندہ نواز کے بابرکت گیسوؤں کی چھاؤں میں آباد یہ شہر کئی سو برس سے علم و فن کا گہوارہ رہا ہے۔ اور آج بھی یہاں صرف علوم ہی نہیں، بلکہ دیگر علوم اور سائنسی مضامین بھی خواجہ کی برکت اور یہاں کے بزرگوں کی مساعی کی بہ دولت پھل پھول رہے ہیں۔ کہنے کو گلبرگہ کی آبادی اردو کی بستیوں سے دور ہے، لیکن سچ بات یہ ہے کہ یہاں اردو کا ماضی تاب ناک اور سرسبز رہا ہے، اور اس وقت بھی یہاں اردو زبان اور ادب کا حال اور مستقبل دونوں ہی ان جگہوں سے بہتر اور خوش نما ہیں جو اردو کی نام نہا، ”اصل بستیاں“ کہی جاتی ہیں۔ زیر نظر مجموعے میں پندرہ شاعر اور آٹھ افسانہ نگار شامل ہیں۔ برصغیر کے دوسرے کسی صوبائی قصبے میں بہ یک وقت اتنی بڑی تعداد میں خوش گو اور تازہ کار شاعر افسانہ نگار مشکل ہی سے نظر آئیں گے۔

ایسی صورت میں یہ بات بالکل مناسب معلوم ہوتی ہے کہ گلبرگہ ضلع سے تعلق رکھنے والے اردو ادیبوں کی تحریروں کا ایک جامع انتخاب شائع ہوا۔ اور گلبرگہ کے ادیبوں میں حمید الماس کا ذکر سر فہرست رکھا جانا بھی مناسب، بلکہ لازمی ہے۔ شاعر اور شاعری کے مترجم، دونوں حیثیتوں سے حمید الماس نے گذشتہ چالیس بیالیس برس میں اپنی جگہ مستحکم کر لی ہے۔ شروع میں جب ہندوستان میں خال خال ہی اچھے ادبی پرچے نکلتے تھے تو حمید الماس کا کلام زیادہ تر پاکستان میں چھپتا تھا، اس حد تک کہ بعض لوگ انھیں پاکستانی شاعر سمجھتے تھے۔ ہندوستان کے اچھے ادیبوں کو ”شب خون“ کی طرف ملتفت کرنے کے لئے اور انھیں ایک معتبر اور مستقبل میدان فراہم کرنے کے لئے میں نے شروع شروع میں ”شب خون“ کے صفحات پاکستان کے ادیبوں کے لئے بند رکھتے تھے۔ ایک بار جب میں نے ”شب خون“ میں اپنے ہم کار حامد حسین حامد مرحوم سے کہا کہ بھائی ”شب خون“ کے لئے حمید الماس کا کلام منگاؤ، تو انھوں نے معاً کہا کہ وہ تو پاکستانی ہیں، تب میں نے ان کی غلط فہمی رفع کی، حمید الماس ان دنوں گلبرگہ ہی میں رہتے تھے اور مجھے بڑی خوشی ہوئی جب ہماری درخواست پر انھوں نے ”شب خون“ کے لئے کلام بھیجا۔ یہ سلسلہ تب سے اب تک قائم ہے۔

حمید الماس کو غزل اور نظم پر یکساں قدرت ہے، لیکن نظم کے شاعر کی حیثیت سے انھوں نے علامت نگاری، اختصار اور خفیف سی مفکرانہ دروں بینی کی جو لے اختیار کی ہے اس میں کوئی ان کا شریک نہیں۔ حمید الماس نے کائنات کو ایک نتہا فرد کے نقطہئ نگاہ سے دیکھا ہے، لیکن اجنبی کائنات میں انھیں کچھ پراسرار لمحے یگانگت اور دل سوزی کے بھی نصیب ہوجاتی ہیں، اگرچہ ان لمحوں کا پورا رس اور جس ان تک ہمیشہ پہنچتا نہیں۔ اس کے بجائے انھیں کائنات میں سوالیہ نشان نظرآتے ہیں جو یگانگت اور دل سوزی کے ہی لمحوں کی طرح پر اسرار ہیں۔ ”نروان“ میں ایک تنہا پرندہ ہے جو سمندر کی طرح آگ میں ہے لیکن آگ سے مصؤن ہے۔ نظم کا متکلم سمجھ نہیں پاتا کہ ایسا کیوں ہے، لیکن وہ اس پرندے سے ہم کلامی کا متمنی ہے کہ شاید اس کے اپنے باطن کا کہرام ٹھنڈا پڑے۔ ”میں“ کا متکلم جس شخص کو دیکھ کر پتھر کا بن گیا ہے، اسی سے وہ اپنی نجات کی بھی امید رکھتا ہے۔ یہی اس کی زندگی کا اسرار ہے۔

وقت ہوتا تو میں حمید الماس کی اور نظموں پر بھی اظہار خیال کرتا، لیکن اس مجموعے کے بہت سے مشمولات میرے دامن دل کو کھینچ رہے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جو ”شب خون“ اور جدیدیت کے سفر میں حمید الماس کی طرح ایک مدت مدید سے میرے ہم راہ رہے ہیں۔ ان کی تحریروں نے جدیدیت اور ”شب خون“ کو اعتبار بخشا۔ اگرچہ میں ان کے بارے میں کبھی کچھ لکھ نہ سکا، لیکن جدید ادب کی جدوجہد ان کے بغیر کامیاب نہ ہوتی۔ اکرام باگ نے تجرید اور شدت تاثر سے بھر ہوئے افسانے لکھے ہیں۔ ان کی نثر بے حد گٹھی ہوئی اور ان کا ایک ایک لفظ دیوار میں چنی ہوئی اینٹ کا حکم رکھتا ہے، کہ اگر ایک بھی اینٹ نکال دی جائے تو دیوار کی کلیت مجروح ہوجائے۔ ان کے افسانوں میں اشیا کے، احساسات کے، زندگی کے رائے گاں جانے کا تصور حاوی ہے، اور اس کے ساتھ ان چیزوں کے ہوجانے کی تمنا، جو ہو نہیں سکتیں۔ پھر ان چیزوں کی جگہ نقلی چیزیں رکھ کر حقیقت کو بہلانے کی کوشش بھی نظر آتی ہے۔ (”اندوختہ“ کے متکلم وحید نے اپنی لڑکی کا نام اس لڑکی کے نام پر رکھا ہے جو اس کی معشوقہ نہ بن سکی، اور خود اس لڑکی نے اپنے بچے کا نام افسانے کا متکلم کے نام پر رکھا ہے۔) لیکن یہ سب زیاں کیوں ہے، چاہی ہوئی چیزیں کیوں وقت سے فعل میں نہیں آتیں؟ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لئے اکرام باگ قاری کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ جھوٹا حل پیش کرکے قاری کو دھوکا نہیں دیتے۔ ”حیات“ نامی افسانے میں ”حیات“ بہ معنی زندگی بھی ہے اور افسانہ نگار کے اس کردار کے بھی معنی میں ہے جو افسانہ نگار سے کھو گیا ہے، یا جدا ہو گیا ہے۔ دونوں صورتوں میں ”حیات“ کے معنی تو معلوم ہو سکتے ہیں لیکن کیفیت نا معلوم رہتی ہے۔

اکرام باگ کا نام لیا جائے تو بشیر باگ اور نجم باگ کا نام یاد آنا لازمی ہے۔ اکرام باگ کے لکھنے کی رفتار اب بہت سست ہوگئی ہے۔ لیکن بشیر باگ، جو اکرام باگ کے کچھ ہی بعد منظر عام پر آئے تھے، اب بالکل چپ ہیں۔ غالباً یہی حال نجم باگ کا بھی ہے، حالانکہ وہ ان دونوں کے بہت بعد کے ہیں۔ کیا ان خاموشیوں کو تخلیقی قوت کے کم زور پڑ جانے یا ناکام ہوجانے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے؟ میں اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہوں، لیکن یہ ضرور دیکھتا ہوں کہ ہمارے زمانے میں اور بہت سے لکھنے والوں کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا، یا ہوتا نظر آتا ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ چھپنے چھپانے کی سہولتیں آج کل پہلے سے زیادہ ہیں، اس لئے ہوس جلدی پوری ہو جاتی ہے۔ لکھنے والے کو جدو جہد بہت نہیں کرنی پڑتی۔ خیر، یہ معاملہ فی الحال ہماری بحث سے خارج ہے۔ بشیر باگ کے یہا سریندر پرکاش، اور نجم باگ کے یہاں مظہر الزماں خاں کا تھوڑا بہت پرتو نظر آتا ہے، اور یہ کوئی نامناسب بات نہیں۔ نامناسب تو تب ہوتی جب ایک کا افسانہ پڑھ کر دوسرے کا دھوکا ہوتا۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ بشیر باگ کے افسانوں میں خوف اور موت مرکزی حقائق کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں۔ ”آکٹوپس“ اور ”جنگ“ میں خوف کی فضا محض ایک انسان کے دل میں ہے، اگرچہ افسانہ نگار ہمیں بھی اس کا حصہ دار بنا لیتا ہے، اور یہی اس کی کامیابی ہے۔ نجم باگ کے افسانوں میں مذہبی پیکروں نے انسانی بے چارگی کی کیفیت کو اور بھی نمایاں کر دیا ہے۔

جبار جمیل کی وہ نظمیں جو انھوں نے اپنے ننھے بچے کی بیماری پر کہی تھیں، خاص طور پر توجہ کو کھینچتی ہیں، کہ ان میں خود ترحمی اور خواہ مخواہ کی درد انگیزی کے بہ جائے موت کی حقیقت کو قبول کرتے ہوئے بھی قبول نہ کرنے کا باوقار اور پر تمکین رویہ ہے۔ اس مجموعے میں شامل ان کی دوسری نظمیں خارجی دنیا کی بے حسی کا نوحہ ہیں، اگرچہ لہجہ ذرا عیاں اور بے پردہ ہوگیا ہے۔ یہ نظمیں بہر حال اس الزام کو جھوٹا ثابت کرتی ہیں کہ نئے شعرا صرف ذات کے حصار میں گم رہتے ہیں خالد سعید کی غزلیں آہنگ کی پختگی، لہجے کے بانگ پن اور عدم انفعالیت کی بنا پر ہرجگہ ممتاز نظر آتی ہیں۔ زندگی میں انصاف اور بے انصافی کے درمیان توازن کبھی نہیں رہا، اور اس زمانے میں وہ اور زیادہ بڑھ گیا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ بہ قول آئیسا یا برلن (Isaiah Berlin) انصاف اور رحم میں کوئی مفاہمت ممکن نہیں۔ انسان رحم طلب کرتا ہے لیکن اسے انصاف بھی نہیں ملتا۔ یہ المیہ خالد سعید کی غزلوں میں بڑی خوبی سے بیان ہوا ہے۔

حمید سہروردی کا نام اس مجموعے میں افسانہ نگار کی حیثیت سے شامل ہے، لیکن وہ شاعر کے روپ میں یہاں جلوہ گر ہو سکتے تھے۔ بلکہ وہ شاید واحد شخص ہیں جن کی تخلیقی رو دونوں جہتوں میں کامیاب ہے۔ اس مجموعے میں ان کا افسانہ ”امیر بخش کون“ جدید انسان کی اس حالت پر درد آمیز طنز ہے جسے کج دار و مریض کہہ سکتے ہیں۔ کائنات میں رنگ و تحرک بھی انسان کی وجہ سے ہے اور کائنات میں خوں ریزی اور سفاکی بھی انسان کی وجہ سے ہے۔ اسے ان دونوں میں کسی ایک کو اختیار کرنے کا یارا نہیں، صرف اپنے سینے کو آرزو سے آباد رکھنے کا یارا ہے۔ ”کربلا“ میں جدید صاحب اقتدار طبقے کا المیہ دکھایا گیا ہے کہ ان کے دل درد مندی اور سوز دروں سے خالی ہیں۔ لیکن درد مندی اور تماشاے لطافت (Power play) میں یک جائی ممکن ہی نہیں۔ اس طرح یہ المیہ ساری انسانیت کا المیہ بن جاتا ہے۔ ان افسانوں میں وہ ارتکاز نہیں جو اکرام باگ کا طرہئ امتیاز ہے، لیکن اکرام باگ کے افسانے بنیادی طور پر ذاتی المیے کی داستانیں ہیں، جب کہ حمید سہروردی کا ہدف ان کی دست رس سے آگے کی آشیا ہیں۔

حامد اکمل کی جو نظمیں اس مجموعے میں شامل ہیں وہ ان کی شاعری کی ایک بالکل ہی نئی منزل کا پتہ دیتی ہیں۔ عام طور پر شاعری اپنی ہستی کو حوالہ بنا کر بات کہتا ہے، لیکن حامد اکمل کی بعض نظمیں، مثلا ”آدم زاد کا ایک ہی غم ہے“، اور ”میں تمھارے لئے کوئی گیت نہیں لکھوں گا“ دوسری ہستیوں کا پتہ دیتی ہیں۔ اور اس عمل میں شاعر کی شخصیت گم نہیں ہو جاتی، بلکہ اس ہستی دیگر کی ذیلی شخصیت بن جاتی ہے۔ ”اظہار“ میں یہ ہستی دیگر خود متکلم کا بیٹا ہے جس کے وجود میں متکلم کو زندگی کا محض تسلسل ہی نہیں، ایک کائناتی قوت حیات کا سا تجربہ ہمکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ نظمیں اپنے موضوع اور اظہار دونوں اعتبار سے منفرد ہیں۔ تنہا تماپوری، حکیم شاکر، خمار قریشی، راہی قریشی ایسے شعرا نہیں کہ ان کے کلام سے سرسری گذرا جا سکے۔ لیکن یہ لوگ کہنہ مشق اور تجربہ کار ہیں۔ میں محب کوثر، اکرم نقاش، نصیر احمد نصیر، صغریٰ عالم اور صابر فخرا الدین کی غزلوں اور لطیف کی نظموں کا ذکر خاص طو رپر کرنا چاہتا ہوں کہ یہ نام میرے لئے کچھ نو آمدہ شعرا کے نام ہیں۔ اکرم نقاش نے چھوٹی بحروں میں نسبتاً زیادہ کہا ہے اور کم و بیش ہر جگہ چھوٹی بحروں کی تنگنائے سے کامیاب نکلے ہیں۔ صغریٰ عالم کی غزلیں زیادہ مختصر ہیں اور انھوں نے ایک آدھ مشکل زمین بھی اپنائی ہے۔ ان کے یہاں اعتماد کا وفور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کے بھی حوالے سے غزل کہہ لیتی ہیں۔ لطیف کی نظمیں اس لئے لائق توجہ ہیں کہ چھوٹی نظم اکثر نثر کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ بات کو جلدی سے ختم کر لینے کی آزادی ایک طرح کا تعیش ہے جو شاعر کو گم راہ بھی کر دیتا ہے اور وہ نثر زدہ سطر کو سڈول مصرعے کا بدل سمجھ لیتا ہے۔ لطیف کی اکثر نظمیں اس عیب سے خالی ہیں۔ ان کی لفظیات میں بھی عام شعرا کی بہ نسبت زیادہ تازگی ہے۔ نصیر احمد نصیر، محب کوثر اور صابر فخر الدین نے اپنے کلام کے تھوڑے ہی سے نمونے پیش کئے ہیں،لہٰذا ان کے بارے میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ان تینوں کے یہاں شگفتہ اشعار موجود ہیں۔ غزل میں طویل عرصے تک باقی رہنے والی کامیابی کے لئے محنت اور ریاض کے ساتھ ساتھ مطالعہ بھی بہت ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مذکورہ بالا تمام شعرا اس بات کا خیال رکھیں گے۔ نئے افسانہ نگاروں میں امجد جاوید کے افسانے ”گھر میں اجنبی“ کا ذکر ضروری ہے کہ انسانی خود غرضی سے آنکھیں چار کرنے کی جو سنگ دلی ہمت اس افسانے میں ملتی ہے اس کی مثال ڈھونڈنے کے لئے ہمیں بہت دور جانا پڑے گا۔ علیم احمد اور کوثر پروین کے نام میرے لئے نئے ہیں۔ علیم احمد کے افسانے ”پچیسواں گھنٹہ“ کا ذکر اس کے موضوع کی تازگی کے باعث ناگزیر ہے۔ اگر وہ اس افسانے کو ذرا اور پھیلاتے تو بات میں مزید توانائی آسکتی تھی۔ کوثر پروین کے افسانے ”بن باس“ میں بیان کی وضاحت کے باوجود معاصر دنیا کی جرم زدگی اور بے دردی کا اچھا احساس ہے۔ ریاض قاصدار کا نسبتاً طویل افسانہ ”آخر کب تک“ جگہ جگہ داخلی کود کلامی کی اچھی مثال پیش کرتا ہے۔ اس مجموعے میں بہت سی تخلیقات ابھی اور ہیں جو اظہار خیال کا تقاضا کرتی ہیں۔ لیکن مجھے احساس ہے کہ دیباچے کو دیباچہ ہی رہنا چاہیے، تنقیدی محاکمہ یا تفصیلی تبصرہ نہیں۔ پھربھی، میں اتنا اور کہنا چاہتا ہوں کہ اس کتاب کے مشمولات میں معاصر زندگی سے آنکھ ملانیا ور اس پر بالواسطہ رائے زنی کی جو ادا ہے وہ اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ جدید لکھنے والا اپنے ماحول سے بے خبر نہیں ہوا ہے۔ لیکن وہ اپنے گرد و پیش پھیلی زندگی کو آسان مسائل، اور اپنی تخلیقی کو ان مسائل کا حل، سمجھنے کی غلطی نہیں کرتا۔ اسے فن اور اخبار کا فرق بہ خوبی معلوم ہے۔

میں نے اس کتاب کے مشمولات بہت دلچسپی سے پڑھے۔ میں اس کے مرتبین اکرم نقاش اور انیس صدیقی کو مبارک باد دیتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ میری طرح دوسرے پڑھنے والے بھی اس کتاب سے بھر پور لطف اندوز ہوں۔ 

شمس الرحمن فاروقی