اصناف سخن

یہ تحریر 7980 مرتبہ دیکھی گئی

                ادبی اصطلاح  کے طور لفظ ’صنف‘ سے مراد ہے ،تحریر کی کوئی قسم۔ 

                عموماً  یہ بعض اصولوں کے تحت ہوتا ہے کہ کوئی تحریر کس قسم میں رکھی جائے، یا کس صنف کی رکن قرار دی جائے۔ان اصولوں یا ان کے مجموعے کا کوئی نام اردو یا انگریزی میں نہیں ہے۔ ہم چاہیں تو انھیں ’اصنافیات‘ کا نام دے سکتے ہیں۔

                ارسطو کے بعد روسی ہیئت پسندوں  نے سب سے پہلے کچھ اصولوں سے گفتگو کی جن کے تحت کوئی تحریر کسی صنف میں رکھی جا سکتی ہے۔ انھوں نے سب سے پہلے تو شاعری کے  بارے میں کہا کہ شاعری میں ’ادبیت‘  یعنیLiterarinessہوتی ہے۔ یعنی انھیں معنی، پیغام، تصور کائنات وغیرہ سے کوئی بحث نہیں تھی۔

                ’ادبیت‘ یعنی  Literarinessکے بارے میں انھوں نے یہ کہا کہ ادبیت کی پہلی پہچان یہ ہے کہ وہ ادبی ترکیبیں Literary Devicesاستعمال کرتی ہے۔ اور سب سے اہم ادبی ترکیب یہ ہے کہ اس میں اشیا کو نامانوس بنا کر پیش کیا جائے۔اس اعتبار سے انھوں نے ناول کی صنف کے بارے میں بہت سی باتیں کہیں۔

                تنقید کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ تنقید کا کام ان ادبی ترکیبوں کو عریاں کرنا Baring the deviceیا نمایاں اور واضح کرنا ہے جن کے ذریعہ کسی تحریر میں ادبیت پیدا کی جاتی ہے یا پیدا ہو جاتی ہے۔

                روسی ہیئت پسندوں نے معنی کے بارے میں کچھ نہیں کہا، حالانکہ ہماری سنسکرت اور عربی روایتوں میں معنی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔

                اصناف کے بارے میں ان کی سب سے اہم دریافت یہ تھی کہ بڑا فن پارہ اس صنف کے امکانات کو ظاہر کرتا ہے جس میں وہ لکھا گیا ہے اور وہ اس صنف میں وسعت پیدا کرتا ہے، یعنی  وہ اس کے اصولوں کو توڑ بھی سکتاہے لیکن اس طرح کہ وہ صنف پھر بھی اپنی جگہ پر قائم رہے۔ اصناف کیسے بنتی ہیں؟ اس سوال کا  ایک جواب ان کی دریافت میں مضمر تھا۔یعنی کبھی کبھی کوئی بڑا فن پارہ کسی صنف کے اصولوں کی اتنی توسیع کرسکتا ہے کہ نئی صنف کا امکان پیدا ہو جائے۔

                جوائس کا ناول Fennigans Wakeاور ایلن ٹیٹ کی اس پر تنقید۔

                شیکسپیئر کے المیہ ڈرامے جو یونانی ڈراموں سے بہت دور کی چیزیں ہیں۔

                خود شیکسپیئر کے سانیٹ۔

                ’بال جبریل‘  میں اقبال کی وہ نظمیں جن پر نمبر پڑے ہوئے ہیں لیکن اکثر لوگ انھیں غزل سمجھتے ہیں، حالانکہ اقبال نے انھیں غزل کبھی نہیں کہا۔

                اقبال کی  وہ نظمیں جن میں مکالمے کو خاص اہمیت حاصل ہے، بلکہ جو مکالمہ ہی ہیں، لیکن انھیں الگ سے کوئی صنف نہیں تسلیم کیا گیا۔

                اقبال کی مثنویاں (’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘؛ ’گورستان شاہی‘) جنھیں الگ الگ بندوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

                ظاہر ہے کہ مثالیں دو باتیں ثابت کرتی ہیں:

                بڑا فن کار کسی بھی صنف سخن میں اتنی توسیع کرسکتا ہے کہ وہ صنف سخن قائم بھی رہے لیکن وہ اپنی پیشرو اصناف سے مختلف بھی ہو۔

                اکثر تحریروں کی صنف کے بارے میں فیصلہ خود مصنف کی شہادت یا فیصلے پر بھی منحصر ہو سکتا ہے۔

                یہاں بورہس کا نثری نظم کے بارے میں قول بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ اگر شاعر نے  اپنی کسی تحریرکو نثری نظم قرار دیا تو یہ کافی ہے۔

                روسی ہیئت پسندوں کی یہ بات بھی اہم تھی کہ ادب درحقیقت ایک نظام ہے اور اصناف ان کے تحتی نظام ہیں۔ بطور نظام اگر ادب کے کچھ قاعدے ہیں تو تحتی نظاموں کے طور پر اصناف کے بھی کچھ قاعدے ہوں گے۔اس میں یہ نکتہ بھی تھا کہ نظام کی حیثیت اپنی جگہ پر آزاد ہوتی ہے اور تحتی نظام بھی اسی طرح اپنی اپنی حد میں آزاد ہوں گے۔ لہٰذا کسی تحتی نظام سے یہ مطالبہ کرنا درست نہیں ہے کہ وہ کسی اور تحتی نظام کا پابند کیوں نہیں ہے۔ اس اصول کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں (اگرچہ یہ بات روسی ہیئت پسندوں کے یہاں زیر بحث نہیں آئی تھی)کہ ہمیں اردو کے شاعر سے یہ مطالبہ نہیں کرنا چاہیئے کہ تمھارے یہاں سانیٹ کیوں نہیں ہے اور نہ ہم انگریزی کے شاعر سے پوچھ سکتے ہیں کہ تمھارے یہاں غزل کیوں نہیں ہے۔

                یہ بھی دھیان میں رہنا چاہیئے کہ اصناف کے حدود بظاہر کتنے ہی سخت اور جامد کیوں نہ ہوں، لیکن وہ مطلق نہیں ہوتے۔کسی بھی تحریر کی صنف متعین کرنے میں کچھ دشواری بھی ہو سکتی ہے۔مثلاً رباعی، جس میں بظاہر کوئی گنجائش اصولوں سے انحراف کی نہیں ہے، وہاں بھی اقبال اور بابا طاہر کی چار مصرعی نظمیں ہیں جو رباعی کی بحر میں نہیں ہیں،لیکن انھیں اقبال نے رباعی کہا ہے اور ہم بھی انھیں رباعی کہتے ہیں۔ ’سیتا ہرن‘ ناول ہے یا ناولیٹ یا طویل افسانہ؟ ’کار جہاں دراز ہے‘ ناول ہے یا خاندان اور اہل خاندان کے بارے میں روایات اور مطائبات کا مجموعہ؟احتشام صاحب مرحوم نے اپنی ایک حزنیہ غزل پر ’بیاد ویت نام‘ کاعنوان دیا تو کیا ہم اسے غزل کہنے میں حق بجانب ہیں؟یا کیا وہ اسے غزل کہنے میں حق بجانب تھے؟ یہ بات خیال میں رکھنے کی ہے کہ بعض اوقات مصنف کے قول کوہر چیزپر فوقیت دینی پڑتی ہے۔ غالب نے ع

                (۱)درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے

                (۲)لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور

کو غزلیات میں شامل کیا ہے، لہٰذا ہم بھی انھیں غزل کہتے ہیں، ہر چند کہ اول الذکر کسی معشوق کا مرثیہ ہے اور آخر الذکرزین العابدین خان عارف کا۔حالی کے مشہو ر منظومے    ؎

                تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ

                نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز

کو لوگ عام طور پر قطعہ سمجھتے  ہیں لیکن در اصل یہ پوری غزل مسلسل ہے  اورساری  ہی غزل دہلی کا مرثیہ ہے۔ مطلع     ؎

                جیتے جی موت کے تم منھ میں نہ جانا ہرگز

                دوستو دل نہ لگا نانہ لگانا ہرگز

اس مضمون کے چار شعروں کے بعد یہ دو شعر گریز کے ہیں     ؎

                جتنے رمنے تھے ترے سب ہو گئے ویراں اے عشق

                آکے ویرانوں میں اب گھر نہ بسانا ہرگز

                کوچ سب کر گئے دلی سے ترے قدر شناس

                قدر یھاں رہ کے اب اپنی نہ گنوانا ہرگز

حالی نے اسے غزل کہا ہے اور ہمیں بھی اسے غزل ہی کہنا چاہیے۔اگر اسے قطعے کے طور پر پڑھائیں یا شائع کریں تو یہ ضرور بتانا چاہیئے کہ یہ غزل مسلسل کا ایک حصہ ہے۔ مسلسل غزل بھی غزل کی توسیع ہی ہے، کوئی الگ سے صنف نہیں ہے۔

                بعض اصناف ایسی ہیں جن میں کم سے کم ایک شرط کی پابندی لازم ہوتی ہے۔ بعض ایسی ہیں جن میں کسی شرط کی پابندی نہیں۔ مثلاً غزل میں صرف دوشرطیں ضروری ہیں، کہ اس کے اشعار الگ الگ مضمون پر مشتمل ہوں اور سب شعروں کی بحر، قافیہ اور اگر ردیف ہے تو ردیف متحد ہوں۔داستان میں صرف ایک شرط ہے کہ وہ زبانی بیان کرنے کے لئے تیار کی گئی ہو۔نظم میں کسی طرح کی قید نہیں، بشرطیکہ کوئی قید شاعر نے خود عائد کر لی ہو، اسے لزوم مالا یلزم کہتے ہیں۔

                اردو دنیا کی ان چند زبانوں میں ہے جن میں نظم کی دو اصناف ہیں: غزل اور نظم۔ہر وہ منظومہ جو غزل نہیں ہے وہ کسی نہ کسی طرح کی نظم ہوگا۔جن زبانوں میں غزل نہیں ہے وہاں ہر منظومہ کسی نہ کسی طرح کی نظم ہو گا، چاہے وہ منظوم ڈراما ہی کیوں نہ ہو۔مرثیہ بھی نظم ہے، مثنوی بھی نظم ہے۔ علیٰ ہٰذالقیاس رزمیہ بھی ایک نظم ہے، منظوم ڈراما بھی نظم ہے، اور ڈراما بھی ہے۔ اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، پشکن کا ناول Eugene Oneginمنظوم ناول ہے، یعنی نظم بھی ہے اور ناول بھی۔

            اصناف کے اصول کس طرح بنتے ہیں؟یا کوئی صنف کس طرح وجود میں آتی ہے؟ یہ مسئلہ بظاہر لاینحل ہے، لیکن بعض باتیں ضرور کہی جا سکتی ہیں:

            اول تو یہی کہ کسی صنف، اور اس کے اصولوں،یا کم از کم بنیادی اصولوں کا وجود بیک وقت یا کم و بیش بیک وقت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر غزل کے بارے میں کہتے ہیں کہ عربی قصیدے کی تشبیب میں عشقیہ اور حزن و ملال کے مضامین ہوتے ہیں۔ بعد میں تشبیب کو الگ کر کے غزل بنا دی گئی۔پہلی بات تو یہ کہ عربی قصیدے میں حزن وملال اور ہجر کے مضامین کی بعض کیفیات اور شرطیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہر طرح کا حزنیہ مضمو ن عربی قصیدے کی تشبیب میں نہیں آتا۔اجڑی ہوئی خیمہ گاہ سے ہٹ کر ویران شہر کا مضمون تشبیب میں لایا گیا تو اسے بڑی تبدیلی قرار دیا گیا۔تیسری بات یہ کہ قصیدے کے اشعار بہر حال مربوط ہوتے ہیں، بہت نہ سہی کم سہی۔لیکن غزل کے شعر تو (اگر غزل مسلسل نہ ہو، یا اس میں کوئی قطعہ نہ ہو)ہمیشہ غیر مربوط ہوتے ہیں۔ایسی صورت میں غزل کے اشعار کی بے ربطی قصیدے کی مرہون منت تو نہیں ہو سکتی۔ اصناف کی ایجاد کے بارے میں غیر منطقی اور غیر تاریخی باتوں کو لانے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شعرا کو محسوس ہوا ہوگا کہ ایسا بھی کچھ کلام ہو تو خوب ہو جس میں اشعار باہم مربوط نہ ہوں اور جس میں عشقیہ مضامین کی فراوانی پر کوئی پابندی نہ ہو۔ ہم جانتے ہیں عرب قدیم میں عذری قبیلے کی غزل انھیں شرطوں کے ساتھ موجود تھی جن سے ہم واقف ہیں، یعنی عشق میں ہجر اور نارسائی کے مضامین پر مبنی اشعار جن میں کوئی ربط نہ ہو۔ اور ہماری غزل اسی عذری غزل کی اولاد ہے۔

            مندرجہ بالا پر غور کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کوئی صنف اسی وقت وجود میں آتی ہے جب اس کی ضرورت محسوس ہو۔رباعی کی مثال سامنے کی ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ رباعی قدیم عرب میں بھی تھی۔ممکن ہے ایسا ہو، لیکن اکثر لوگ رباعی کو فارسی کی صنف مانتے ہیں۔ممکن ہے ایسا ہی ہو۔ رباعی کی ایجاد یا دریافت کے بارے میں افسانوں کو ایک لمحے کے لئے الگ رکھ دیں تو کئی باتیں سامنے آتی ہیں:

            ۱۔عربی عروض خاصا لچک دار ہے۔ وہاں ایسے زحافات ایک ہی شعر میں ممکن ہیں جو اردو تو کیا، فارسی میں بھی ممکن نہیں۔

            ۲۔قدیم عربی میں قطعے کے سوا مختصر نظم کا کوئی تصور نہیں۔

            ۳۔رباعی میں وہ تمام صفات ہیں جو کسی صنف میں یکجا نہیں ملتیں:قافیے، اور ضرورت ہو تو ردیف کی پابندی۔ مطلعے (یعنی شروع کے دونوں مصرعوں میں قافیہ اور حسب ضرورت ردیف کا ہو نا اور ان کی بحر یکساں ہونا)کی پابندی۔ غزل کی ہیئت سے ایک اور مشابہت کہ رباعی کے تیسرے مصرعے کے لئے بقیہ مصرعوں سے ہم قافیہ اور اگر ردیف بھی ہو تو مردف ہونا ضروری نہیں۔

            ۴۔ رباعی کے چوبیس اوزان مقرر ہیں لیکن کسی ایک رباعی میں چار مصرعے ان چوبیس میں سے کسی چار اوزان میں ہو سکتے ہیں۔اس طرح بحر کے اعتبار سے رباعی میں وہ تنوع ممکن ہے جو عربی میں بھی بہت کم نظرآتا ہے۔

            ۵۔ عربی میں سہ رکنی بحریں زیادہ استعمال ہوئی ہیں۔ رباعی میں چار ارکان کی شرط ہے اور اس سے کوئی مفر نہیں، جس طرح رباعی کے مقررہ اوزان سے کوئی مفر نہیں۔

            (۶) رباعی ایک طرح سے عینی چھوٹی نظم یعنی Ideal short poem ہے۔ چار مصرعوں کی پابندی اتنی سخت ہے، کہ رباعی میں چار سے زیادہ مصرعے ہرگز نہیں ہو سکتے اور جو بھی وزن ہو گا وہ مثمن ہو گا، کچھ اور نہیں۔  

            لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ عربی شاعری اور رباعی میں کئی مماثلتیں اور کئی افتراق ہیں۔اس سے زیادہ مکمل صنف کوئی نہیں کہ اس میں فارسی اور عربی دونوں کی صفات موجود ہیں۔ ایسی صنف تو تقاضا کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں ایجاد کرو اور ایک بہت بڑی ضرورت کو پورا کرو۔

            اگر ضرورت نہ ہو تو صنف وجود میں نہیں آتی۔ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ ہر وہ منظومہ، جو غزل نہیں ہے، وہ نظم ہو گا۔ اس طرح ہمارے یہاں نظم کی تمام ہیئتوں کا انتظام ہو چکا ہے۔اب صرف ایک صنف یا ہیئت کی ضرورت تھی۔ معرا نظم ہمارے یہاں نہیں تھی، اور ظاہر ہے کہ اس کی ضرورت اور کار آمدگی میں کوئی شک نہیں، خاص کر جب ہمارا عروض آزاد نظم یعنیNon-metrical verseکی اجازت نہیں دیتا۔ ہم نظم کے مصرعوں کو چھوٹا بڑا کر کے دل خوش کر لیتے ہیں کہ ہم نے آزاد نظم کہہ لی۔ در حقیقت وہ بھی معرا نظم کی ایک شکل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ معرا نظم کہیں یا آزاد نظم کہیں، یہ صنف اسی وقت مقبول اور رائج ہوگئی جب ہمیں اس سے متعارف کیا گیا، سو برس سے کچھ اوپر۔اور اب تک اس کی مقبولیت اور اہمیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں معرا یا آزاد نظم کی مقبولیت نے پابند نظم کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

            گذشتہ چند برسوں میں جو ’نئی‘ اصناف یا ہئیتں ایجاد ہوئی ہیں ان میں سے کوئی بھی قائم نہیں سکی اور نہ ہی ہو سکتی ہے۔ محض ایجاد بندہ کے طور پر ہم آزاد غزل سے لے کر کہمن تک ’اصناف‘ ایجاد کرلیں لیکن ان کا کچھ ہونا نہیں ہے۔ جو باہر کی اصناف ہم نے اختیا ر کی ہیں مثلاً ہائیکو یا ماہیا تو ابھی تک ان کی ضرورت محسوس بھی نہیں ہوئی ہے، ثابت ہونا تو دور کی بات ہے۔ جن لوگوں نے بظاہر امیر خسرو کی نقل میں کہہ مکرنی وغیرہ کو رائج کرنے کی کوشش کی ہے وہ اس بات کو بھولتے ہیں کہ یہ بات ثابت نہیں کہ کہہ مکرنی امیر خسرو کی ایجاد ہے۔ دوسری بات وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر امیر خسرو، یا کسی اور نے کہہ مکرنی ایجاد بھی کی تو اس کی مثال آج کے پہلے کیوں نہیں ملتی؟ اور کوئی نہیں تو مبارک آبرو، ناجی اور تاباں جیسے کھلنڈرے شاعر دو چار کہہ مکرنیاں تو ضرور ہی چھوڑ جاتے۔صنف کے لئے ندرت کافی نہیں۔ مقبولیت سب سے بڑی شرط ہے۔ اور مقبولیت منحصر ہے ضرورت پر۔ بھوک نہ لگی ہو توگلاب جامن چاہے جتنی ہی عمدہ ہو،کچھ ہی لوگ اسے چکھیں گے۔

            نثری نظم کے بارے میں ایک مدت ہوئی میں نے لکھا تھاکہ ہمارے یہاں اس کی ضرورت نہیں ہے اور صنف کی حیثیت سے اس کا مجھے کوئی مستقبل نہیں نظر آتا۔ اس پر کچھ واویلا بھی ہوا۔ لیکن آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ نثری نظم ہمارے یہاں بہت ہی کم کہی جارہی ہے۔ اس کا حال وہی ہوا ہے جو اردو میں سانیٹ کا ہوا، کہ ایک زمانے میں یہ بہت چلی،پھر سب نے اسے بھلا دیا۔

            فرانسیسی زبان کی مثال یہاں درست نہیں ہے۔ نثری نظم سب سے پہلے فرانسیسی میں لکھی گئی لیکن وہاں شاعر پراس قدر پابندیاں ہیں اور اکثر بالکل فضول ہیں،کہ ہمارے یہاں کی پابندیاں ان کے سامنے کچھ نہیں۔ اس لئے نثری نظم شروع ہوئی اور وہاں تو عالم یہ ہے کہ قافیے اور وزن میں تھوڑی سی آزادی اختیار کر کے انھوں نے یہ دعویٰ بھی کرڈالا کہ اب نظم آزاد ہے۔

            دوسری زبانوں سے عروض مستعار لینا، دوسری زبانوں سے اصناف یا ہیئتیں مستعار لینا، یہ سب بعض اوقات تو ناممکن ہے اور جب ممکن بھی ہوتا ہے تو کار فضول ہوتا ہے۔

            صنف سخن کے بارے میں آخری اہم بات یہ ہے کہ کوئی صنف جب قائم ہو جائے تو پھر وہ منسوخ نہیں ہوتی۔ بھلے ہی وہ کچھ مدت کے لئے متروک ہوجائے۔ہمارے یہاں استادوں نے الفاظ کو متروک قرار دینے کا تماشا خوب کیا اور ہم میں سے اکثر ان کی تماشا گری سے متاثر بھی ہو گئے۔نتیجہ یہ ہواکہ ہم سینکڑوں الفاظ سے محروم کر دئیے گئے۔ لیکن اصناف پر کسی کا اجارہ نہیں ہے۔ جو صنف بن گئی وہ بن گئی۔ڈراما ہمارے یہاں بالکل نہیں تھا، لیکن جب وہ بن گیا تو بن ہی گیا۔ ڈراما ہماری مقبول ترین صنف نہ ہو، لیکن متروک یا منسوخ بھی نہیں ہے۔

شمس الرحمٰن فاروقی

(علی گڈھ مسلم یونیورسٹی، ۲۵ نومبر ۲۰۱۳)

٭٭٭