کہانی ”جاگنگ ٹریک“ پر زندگی کی معنویت

یہ تحریر 678 مرتبہ دیکھی گئی

کہانی ”جاگنگ ٹریک“ کے پیداواری انسان جناب سید گلزار حسنین ہیں، یہ کہانی ان کی کہانیوں کی کتاب ”پتھر چہرے“ سے لی گٸی ہے، کہانی پڑھتے ہوٸے میرا ذہن بار بار اس طرف گیا کہ آخر کوٸی لکھت یوں بھی لکھی جا سکتی ہے چونکہ ہم نے تو پہلے کہیں پڑھا اور سنا تھا کہ کچھ نابغہ روزگار انسان رنگوں کی صدا بھی سن لیتے ہیں، اس صدا سننے پر ہم نے کافی حیرت کا اظہار کیا تھا، لیکن جب سے میں نے اس کہانی کے پیداکردہ انسان کو پرندوں کی صدا سنتے اور پھر سمجھتے ہوٸے دیکھا ہے تو میرا خیال دو جانب جھٹ سے گیا کہ ایک یہ کہانی کار کس قدر حساس ہے، دوسرا اس نے اسی صدا کو اپنی کہانی میں نماٸندگی دیتے ہوٸے زبان بھی دی ہے، مثلاً وہ جونہی پرندوں کے شوروغل کو سنتے ہیں تو یہیں تک نہیں رہ جاتے بلکہ وہ اس ٹوہ میں لگ جاتے ہیں کہ آخر یہ پرندے اتنا شور کیوں کر رہے ہیں؟

”میں نے کٸی دفعہ وہاں سے گزرتے ہوٸے سوچا کہ یہ اتنا شور کس بات پر کر رہے ہیں کچھ تو اس کا سبب ہو گا“

رُکیں، پہلے ہم یہاں اس بات کا جاٸزہ لیتے ہیں کہ وہ پرندے آخر اتنا شور کیوں کرتے تھے؟ صاحب لکھت،اس مقدمہ سے پہلے یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ یہ شور شام کے وقت کیا کرتے جب سورج اپنی آخری سانسوں پر ہوتا اور پرندے بھی دن بھر اپنے رزق کی تلاش کے بعد پلٹ آتے، ایک تو اس شور کی وجہ رزق کا کامیاب حصول ہو سکتا ہے دوسرا شام کی اداسی بھی ہو سکتا ہے، لیکن ہم اپنے جاٸزہ سے زیادہ خود کہانی کار کے اس حوالہ سے اک خفیف اور گہرے اشارے کو پیش کیے دیتے ہیں، جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ”کچھ تو اس کا سبب ہو گا“ اس کے اگلے ہی لمحے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بھلے پرندوں کے شور کرنے کا مقصد ہماری سمجھ میں نہ آٸے، اب ہم وہ اشارہ پیش کرتے ہیں کہ ”سورج انسانوں اور پرندوں میں زندگی اور روشنی کا کس قدر مضبوط استعارہ ہے“ اس کے ساتھ ہی درج ذیل الفاظ میں آپ فطرت اور پرندوں کا اک گہرا ربط بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں:

”کبھی کبھی جب ابھی دھوپ باقی ہوتی، جھیل کے ساتھ چھوٹے ٹیلے کے اوپر کوٸے اور چیلیں ڈوبتے سورج کی طرف منہ کیے آرام سے بیٹھے نظر آتے، جیسے ہی دھوپ غاٸب ہوتی، وہ بھی پرواز کر جاتے“

کہانی اک ٹریک سے شروع ہوتی ہے اور اسی ٹریک پر ختم ہو جاتی ہے، اگر زندگی کے حوالے سے بھی یہی کچھ کہا جاٸے تو غلط نہ ہو گا، کہانی پڑھتے ہوٸے میرا ذہن اس طرف بھی گیا کہ انسانی زندگی کو آپ ایک ہی ٹریک پر مختلف طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں، ویسے انسانی زندگی کے کٸی ٹریک ہوتے ہیں، بس ہر جگہ اس کے دیکھنے کے انداز الگ الگ ہو سکتے ہیں، کہانی کار کے اس ”جاگنگ ٹریک“ کے ذریعے کچھ نامانوس لوگ بھی اس ٹریک پر مانوس دکھاٸی دیتے ہیں، یہ کمال کہانی کار کا ہے کہ اس نے اس ٹریک پر بھی اک نٸی طرح کی سماجی زندگی کو متعارف کراتے ہوٸے دکھایا ہے اور انسان کو ایک کھلا موقع دیا ہے کہ وہ بھی اس سماجی زندگی کا حصہ بنتے ہوٸے معروض کو کٸی زاویوں سے محسوس کرے اور پھر اس کا عمیق تجزیہ کرے، یہ تب ممکن ہو گا جب آپ اس سماجی زندگی کا باضابطہ حصہ بنیں گے، صاحب لکھت نے خود کو اس جاگنگ ٹریک کا عملی سرگرم رکن بناتے ہوٸے اس پر موجود سماجی زندگی کا گہری نظر سے تجزیہ کیا ہے اور اپنے قاری کو بھی برابر اپنے اس مشاہدے کا حصہ دار بنا دیا ہے۔سید زادے کے ٹریک پر سماجی زندگی کا اک منظر ملاحظہ کریں:

”گرمیوں کے موسم میں پارک میں سیر کرنے والوں کی تعداد بڑھ جاتی۔مختلف عمر کی عورتیں، مرد اور بچے تیز چلتے، ایک دوسرے سے بے نیاز روشوں پر رواں دواں رہتے۔ نوجوان چلنے کی بجاٸے اکثر دوڑتے ہوٸے گزر جاتے۔ تھکن اُن کے چہروں پر عیاں نہ ہوتی۔ بلکہ پسینے کے سبب اُن کے چہروں پر چمک پیدا ہو جاتی جو اُن کی جوانی کی غمازی کرتی تھی، میرے اپنے چہرے پر بھی پسینے کی وجہ سے اسی قسم کی چمک پیدا ہو جاتی لیکن اپنے سے کم عمر نوجوانوں سے کم“

آپ کو اس کہانی میں اک امید کی کرن بھی نظر آٸے گی جو کہ زندگی کو اک سچے جذبے سے سرشار کرنے کے لیے کسی مہمیز سے کم نہیں، یہ زندگی اک نٸے پن سے عبارت نظر آتی ہے، اس زندگی کے جاگنگ ٹریک پر چلتے ہوٸے آپ کا واسطہ گوناگوں معروض سے پڑتا ہے اور یہ اک طرح سے نٸی زندگی ”حرکت“ سے مشروط ہے، انفرادی زندگی کی حرکت و کوشش آپ کو سماجی زندگی کے دوراہے پر لا کھڑا کرتی ہے، اور پھر آپ سماجی زندگی کے انضمام میں عملی سطح پر شامل ہوٸے بغیر نہیں رہ سکتے، اگر اس کے ساتھ اک انسان میں سماجی زندگی کے گہرے احساس کا شعور بھی شامل ہو جاٸے تو زندگی پرلطف ہو جاتی ہے۔

اس کہانی میں معنویت کی کٸی پرتیں موجود ہیں، لکھنے والے نے اسے جہاں اپنے ایک شاندار اسلوب میں ڈھال کر پیش کیا ہے وہیں کہانی کے کرداروں میں بھی سلیقے دکھاٸے ہیں، اس سلیقے میں ترتیب کا بہت لحاظ رکھا گیا ہے، یہ ترتیب و سلیقہ معنویت کو متعین کرتا ہے میرے خیال کے مطابق ایسی معنویت جو زندگی یا کسی بھی حوالہ سے سلیقہ و ترتیب کی حامل نہ ہو، میں اسے معنویت کے داٸرہ کار سے پرے کی چیز سمجھتا ہوں۔ اس کہانی کے جہاں کٸی رنگ ہیں وہاں کہانی میں جزٸیات نگاری کا بھی غیر معمولی لحاظ رکھا گیا ہے، یہ جزٸیات نگاری جہاں قاری کے لیے کہانی کی قرآت کا انداز دلچسپ بنا دیتی ہے وہیں کہانی کار کو بھی اپنے قاری کی نظروں میں وقیع کر دیتی ہے، اسی ذیل میں اگر کہانی کار کو جزٸیات نگاری کا بادشاہ کہا جاٸے تو بے جا نہ ہو گا، وہ ماحول کو دیکھتے موضوعی انداز میں ہیں لیکن ان کے پیش نظر اس کی پیش کش معروضی حوالہ سے ہوتی ہے، ایک قاری اس کی پڑھت سے جہاں سہولت محسوس کرتا ہے وہیں وہ اس بے مثل جزٸیات نگاری سے لذت بھی کشید کرتا ہے اور وہ ابدی حظ کا ساماں سمیٹ کر دھیرے دھیرے ایک جیتے جاگتے ”جاگنگ ٹریک“ پر چل پڑتا ہے، تاکہ وہ خود کو عملی سطح پہ اس تجربے میں زندہ رکھ سکے، اس معنویت و جزٸیات کی حامل سطور کو ملاحظہ کریں:

”کچھ مرد و زن چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر چلتے۔ سب سے منفرد اور بڑا گروہ سات آدمیوں پر مشتمل تھا۔ تمام عمر رسیدہ لیکن بظاہر صحت مند۔ یہ خراماں خراماں چلتے مسلسل گفتگو کیے جاتے۔ معلوم ہوتا، انہیں چہل قدمی سے زیادہ گفتگو سے دلچسپی ہے۔ دو قطاریں بناٸے آگے پیچھے رہتے اور باتیں کیے جاتے۔اگر روش پر سامنے سے کوٸی آ رہا ہوتا تو اس کے لیے راستہ چھوڑ کر ایک قطار بنا لیتے اور باتوں کا تسلسل نہ ٹوٹنے دیتے۔ کچھ دیر روش پر چلنے کے بعد قریب کے کسی بنچ پر بیٹھ جاتے، کچھ دیر سستانے اور ایک دوسرے کو مذاق کرنے کے بعد دوبارہ روش پر آ جاتے۔ان میں سے ایک بزرگ عجیب سے حلیے کا تھا۔ اکثر سفید شرٹ، اُسی رنگ کی پتلون اور سفید ہی جوتے پہنے رکھتا۔ قد درمیانہ تھا۔ پتلی پتلی ٹانگیں اور بڑھتا ہوا پیٹ۔ سفید شرٹ پیٹ پر تنگ آ جاتی۔ عمر ستر سال ہو گی“

جب اس کی نظر جاگنگ ٹریک پر سات آدمیوں کے گروہ میں اک ایسے بزرگ پر پڑتی ہے (جس کا ذکر ہم گذشتہ سطور میں کر چکے ہیں) جسے دیکھتے ہی اُسے لگا کہ جیسے یہ پچھلے جنم میں مچھلی رہا ہو گا، یہ خیال نفسیاتی نقطہ نظر کا حامل دکھاٸی دیتا ہے کہ اس مچھلی سے ملتا جلتا کوٸی واقعہ کہیں بچپن میں اس کے ساتھ پیش آیا ہو گا اور پھر وہ واقعہ کہیں اس کے لاشعور کا حصہ بن گیا۔

”پہلی دفعہ جب میری اُس پر نظر پڑی تو ایسے لگا جیسے وہ پچھلے جنم میں مچھلی رہا ہو گا۔ میرے منہ سے فوراً نکلا، ”مچھلی نما انسان“، مجھے اس عجیب خیال کی کوٸی خاص وجہ سمجھ نہ آٸی“

آپ یہاں غور کریں کہ اس بندے پر نظر پڑتے ہی اُسے ایسے لگا جیسے یہ پچھلے جنم میں مچھلی رہا ہو گا، مگر اس کے اگلے ہی لمحے اس کے منہ سے نکلا کہ ”مچھلی نما انسان“ اور پھر وہ خود ہی گویا ہوتے ہیں کہ مجھے اس عجیب خیال کی کوٸی خاص وجہ سمجھ نہ آٸی، تو یہ سارا منظر اک نفسیاتی پسِ منظر کا حامل نظر آتا ہے، جو کہ اک انسان کے لاشعور کے گرد گھومتا ہے اور اس بزرگ بندے کو دیکھتے ہی اس کے شعور میں آ جاتا ہے۔

انہی سات آدمیوں کے گروہ میں ایک آدمی جس کی لمبی سفید داڑھی اور لمبے بال جو کہ کندھوں تک بکھرے ہوٸے تھے، وہ بھورے رنگ کی ڈھیلی ڈھالی شلوار پہنے رکھتا، اور سردیوں کے دنوں میں وہ خود کو گرم چادر سے لپیٹے رکھتا، کہانی کار کو اس بندے کو دیکھ کر کیا لگتا ہے، ملاحظہ کیجٸے:

”اُسے میرے ذہن نے کسی دور اُفتادہ جنگل کے کنارے پر واقع اُجاڑ مندر کا پروہت بنا دیا“

اس ذہنی اختراع سے جنم لیتی تخیلاتی فضا کی توضیح کرنے سے پہلے میں یہ واضح کر دوں کہ کہانی کار نے لاشعوری طور پر ”شعور کی رو“ کو بھی اس کہانی میں بڑی مہارت کے ساتھ برتا ہے، تخیلاتی فضا سے کچھ ہی لمحے بعد صاحب لکھت اپنے معاصر معروض سے آ کر مل جاتا ہے یا دوسروں لفظوں میں وہ مادی حقیقت سے گلے مل جاتا ہے۔ ”شعور کی رو“ کے اثبات میں اس تخیلاتی فضا کے آخری جملے پیش کیے دیتا ہوں:

”جب ذہن اس اجاڑ مندر، جنگل جھرنے اور جھیل کی سیر کے بعد واپس پارک آتا تو کٸی دفعہ یہ سوال ساتھ لے کر آتا کہ یہ پروہت کب کا یہاں سیر کرنے آتا ہے، کیا اس نے مندر کو خیر باد کہہ دیا ہے یا رات واپس مندر چلا جاتا ہے۔ اکثر اس تخیلاتی سوال و جواب پر میں مسکرا دیتا“

کہانی پڑھتے ہوں بعض دفعہ تو یوں لگتا ہے جیسے کہانی کار کا یہاں واضح مقصد ماضی کی بازیافت ہے، میں نے اس ساری کہانی میں جا بہ جا اس چیز کا احساس ان کے ہاں پایا ہے، جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ان کا اسلوب شاندار ہے مگر اب یہاں صراحت کے ساتھ بتاٸے دیتا ہوں کہ ان کا اسلوب بنیادی طور پر تاریخی ہے ہر ہر جملہ اک ماضی کا عکاس معلوم پڑتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ متن میں کٸی ایسے جملے بھی موجود ہیں جو تعبیری طرز پر لکھے گٸے ہیں، مطلب اس کہانی کو ایک طرح سے تعبیری متن بھی کہا جا سکتا ہے،ویسے کسی بھی کہانی میں تعبیر کا عنصر کافی حد تک نمایاں ہوتا ہے، میں سمجھتا ہوں تعبیری متن دو طرح کا ہوتا ہے اک جسے منشاٸے مصنف نے تحریر کیا اور دوسرا وہ ہوتا ہے جس کی تعبیر اس کا قاری کرتا ہے، اس متن پارے کی یہ خوبی ہے کہ اس میں بیک وقت دونوں چیزیں موجود ہیں، میں یہاں پہلے اس حوالہ سے ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں، بعد از اس کے ماضی کی بازیافت کے نکتے کی وضاحت کروں گا، تعبیری متن کی جھلک ملاحظہ کریں:

”جھیل کے ساتھ بنی پتھر کی سیڑھیوں کو بھی جنگلی پودوں اور بیلوں نے کافی حد تک ڈھانپ لیا تھا اور ان سیڑھیوں نے شاید کافی مدت سے کسی پجاری یا یاتری کے پاٶں کا لمس محسوس نہ کیا ہو گا“

اب ان درج بالا جملوں میں ”شاید“ کا لفظ مستعمل ہوا ہے جو کہ تعبیر کا پتا دیتا ہے، اب درج ذیل مثال میں اسی لفظ ”شاید“ کی تعبیر بالکل موہوم انداز میں پھر سے کی گٸی ہے، مثال درج کرنے سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ تعبیر ”ہو سکتا ہے“ پہ بنیاد کرتی ہے جبکہ وضاحت ”ہے“ پہ دلالت کرتی ہے، مطلب ایک میں ”امکان“ جبکہ دوسرے میں ”یقین“ ہوتا ہے۔اب مثال ملاحظہ کریں:

”اب فقط رینگتے حشرات الارض تھے یا کبھی کبھی جنگلی جانور پانی پینے ادھر آتے تو چند سیڑھیوں تک بھی آ جاتے“

سب سے پہلے تو اس جملے میں کس قدر خوبصورتی ہے دوسرا جانوروں کا سیڑھیوں تک آنا ایک امکان کو واضح کرتا ہے یقین کو نہیں، مگر جملہ ”چند سیڑھیوں تک بھی آ جاتے“ ایک موہوم سا یقین بھی پیدا کر دیتا ہے، جبکہ اس جملے پہ مزید غور کریں تو اک ہلکا سا اشارہ تعبیر کی طرف بھی جاتا ہے، جو کہ پچھلی مثال کے لفظ ”شاید“ کی اک طرح سےتعبیر ہے جبکہ دوسرے لمحے میں یقین کا تصور بھی دکھاٸی دیتا ہے۔اس غیر واضح صورت حال کو تعبیر کا نام دیا جا سکتا ہے۔

اب ہم کہانی کے ان پہلوٶں پہ بات کریں گے جس سے ماضی کی بازیافت یا تاریخی جڑت واضح ہوتی نظر آتی ہے، جب اس کی نظر سات آدمیوں کے گروہ میں سفید داڑھی اور لمبے بکھرے بالوں والے شخص پہ پڑتی ہے تو اس کے ذہن میں اک دم پروہت کا خیال آتا ہے اور یہی خیال اسے ماضی کی طرف لے جاتا ہے اور ایک پورا ماضی اس کے دماغ میں گھوم جاتا ہے، ہم آپ کو بھی انہی کے الفاظ میں تھوڑا ماضی کی طرف لیے چلتے ہیں:

”کٸی دفعہ ایسا ہوتا کہ میں اس پروہت کے متعلق سوچتا اور میرا ذہن پارک سے نکل کر ویران مندر اور اس کے اردگرد واقع وسیع اور گھنے جنگل کی سیر کو نکل جاتا“

اب ان جملوں سے ”شعور کی رو“ بالکل عیاں ہے لیکن ہمارا یہاں بات کرنے کا مقصود ماضی کے حوالہ سے ہے، ”ویران مندر“ کا لفظ کہانی کار کی ماضی سے دلچسپی کو واضح کرتا ہے اب اسی درج بالا مثال کی ذیل میں آگے وہ دیوی دیوتاٶں اور ویران گھروں کا بھی ذکر کرتا ہے جو اس کا رشتہ تاریخ سے قاٸم کر دیتے ہیں لیکن ان کی یہ ماضی سے دلچسپی اور تاریخ سے جڑت آگے چل کر یوں واضح ہو جاتی ہے کہ اُجاڑ مندر کے پروہت کو جاگنگ ٹریک پر غاٸب پا کر وہ مغموم سا ہو جاتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے ”مچھلی نما انسان“ کے انتقال پر اس نے تاسّف کا اظہار نہ کیا تھا جبکہ اُجاڑ مندر کے پروہت کو غاٸب پا کر وہ مغموم ہو جاتا ہے، پروہت کا تعلق اُجاڑ مندر سے ہے اور مندروں کو تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔چونکہ مندر کا رشتہ عمارت سے ہے اور تاریخی عمارتوں کے ذکر کے بغیر تاریخ نامکمل سی رہتی ہے:

”کچھ عرصے بعد وہ اُجاڑ مندر کا پروہت بھی غاٸب ہو گیا۔اسے موجود نہ پاکر میں مغموم سا ہو گیا“

وہ یہاں تک نہیں رکتے بلکہ اس پروہت کے بارے میں وہ ملال میں پڑ جاتے ہیں اور ایک ہفتہ انتظار کرنے کے بعد بالآخر وہ اس گروہ کے لیڈر سے پوچھ لیتے ہیں کہ پروہت کو یہاں چند دنوں سے غاٸب پا رہا ہوں اس کے نہ آنے کی وجہ کیا ہے، تو ان کے لیڈر نے جواب دیا کہ اس کا انتقال ہو گیا ہے۔ جس پر وہ ان سے گہرے دکھ کا اظہار کرتا ہے۔ اس حوالہ سے الفاظ ملاحظہ کریں:

”ان لوگوں کے ساتھ میری ایک قسم کی دور ہی دور سے وابستگی ہو گٸی تھی۔ جب پروہت کو ایک ہفتہ تک نہ دیکھا تو میں نے ایک دن ان کے پاس سے گزرتے ہوٸے سلام کر دیا جس کے جواب میں وہ ایک دم سب بول اُٹھے، وعلیکم سلام، میں نے پروہت کے نہ آنے کی وجہ دریافت کی تو اُس زمیندار نے تاسف سے جواب دیا کہ اس کا انتقال ہو گیا ہے۔ ”اوہ، مجھے بڑا افسوس ہوا،“

اس کہانی کو پڑھتے ہوٸے میرا خیال اس طرف بھی گیا کہ جب آپ ایک جاگنگ ٹریک پر مسلسل چلتے رہتے ہیں تو مغاٸرت کا تصور خود بخود ہوا ہونے لگتا ہے، آپ بیگانگی کی زندگی سے نکل کر مانوسیت والی زندگی کے داٸرہ میں آ جاتے ہیں بلکہ اگر یوں کہا جاٸے تو زیادہ صاٸب ہو گا کہ آپ انفرادی زندگی سے نکل کر سماجی زندگی کے اندر آ جاتے ہیں، آپ پہلے پہل اپنے اندر اُس ماحول سے مغاٸر ہوتے ہیں پھر آہستہ آہستہ ہر چیز آپ کو مانوس لگنے لگتی ہے کیونکہ ہر شے آپ سے اور آپ اُس سے آشنا ہو جاتے ہیں، اس حوالہ سے صاحب لکھت کے الفاظ ملاحظہ کریں:

”لگاتار ایک مہینہ پارک میں آنے کے بعد میں اس ماحول سے کافی مانوس ہو چکا تھا، جو شروع شروع میں میرے لیے کوفت اور بیزاری پیدا کر دیتا تھا۔ اب ناغہ کرنے کو بھی جی نہ چاہتا“

کہانی کار کو ملازمت کے سلسلے میں تین سال کے لیے ملک سے باہر جانا پڑتا ہے،جب وہ واپس آتے ہیں اور پارک میں پھر باقاعدگی سے جانے لگتے ہیں تو انہیں سب سے پہلا خیال اُن بزرگوں کا آتا ہے جنہیں وہ پارک میں بلاناغہ دیکھا کرتا اور اُن سے اُس کی ایک طرح کی وابستگی بھی ہو گٸی تھی۔ تو یہ سب باتیں مغاٸرت کا رد معلوم پڑتی ہیں اور جاگنگ ٹریک کی زندگی کی معنویت کو ابھارتی ہیں، اور یہ سب یکطرفہ نہیں تھا بلکہ اس گروہ کو بھی کہانی کار کے غاٸب ہونے کی تشویش لاحق ہو گٸی تھی، اس تشویش میں اک دلی جھکاٶ بھی واضح نظر آتا ہے، آپ ذرا دونوں طرف سے تشویش اور محبت کا عنصر ملاحظہ کریں:

”میں اُن کو دیکھنا اور اُن کی خیریت دریافت کرنا چاہتا تھا۔کچھ دیر بعد وہ دور سے نظر آٸے۔ حسب معمول ان کا لمبا لیڈر سب سے آگے تھا۔قریب آنے پر میں نے پہلی بار رُک کر ان سے ملنا چاہا، لیڈر نے پہلے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔پھر شفقت سے گلے لگایا، آپ کافی مدت کے بعد نظر آٸے۔ مجھے فکر لاحق ہو گٸی تھی، حالانکہ ابھی تک میں آپ کا نام بھی نہیں جانتا“

کہانی کا اختتام کہانی کار زندگی کی ایک بے رحم حقیقت پر کرتے ہیں جو کہ سماجی زندگی سے آپ کو ہمیشہ کے لیے تنہا کر دیتی ہے، اور اس ہمیشہ ہونے والی تنہاٸی کا احساس تبھی ہو سکتا ہے جب آپ سماجی زندگی کا مکمل حصہ بن جاتے ہو۔کہانی کار کچھ ایسی ہی پریشانی کا اظہار کرتا ہے۔ اک دن ایسا آ جاتا ہے کہ جب اس گروہ کے تمام لوگ اس دنیا فانی کو سُدھار چکے ہوتے ہیں، لیکن عمر رسیدہ لوگوں کا ایک گروہ اب بھی نٸے لوگوں کے شامل ہونے سے قاٸم رہ جاتا ہے، اب اس نٸے گروہ کا قاٸد کافی دنوں سے صاحب لکھت سے بات کرنا چاہا رہا ہوتا ہے لیکن کہانی کار کَنی کترا کر گزر جاتا تھا بالآخر ایک دن کہانی کار کو وہ روک لیتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ عمر کے جس حصہ میں ہو اس میں اکیلے سیر کرنا بوریت کا باعث ہوتی ہے اور غیر محفوظ بھی۔ سانسوں کا بھی کچھ اعتبار نہیں ہوتا کہ کب رخصت ہو جاٸیں۔ اگر آپ ہمارے ساتھ چہل قدمی کریں تو ہمیں خوشی ہو گی، کہانی کار اُن کی بات مان لیتا ہے اور اُس گروہ کا حصہ بن جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی زندگی کی اٹل بے ثباتی کا خیال اُس کے ذہن میں ایک دم آ جاتا ہے، اور یہ خیال خود گروہ کے تمام لوگوں کا اس دنیا فانی کو سدھارنے کے بعد پیدا ہوتا ہے، یہ خیال اپنی جگہ ایک انمٹ حقیقت بھی ہے، ذرا وہ اختتامی خیال ملاحظہ کریں اور خود ہی زندگی کی ناپاٸیداری بارے سوچیں اور اس حقیقت کو تسلیم کر لیں:

”پسینے سے شرابور مسکراتے اور چمکتے چہروں والے نوجوان بھاگتے ہوٸے ہماری طرف دیکھتے گزر جاتے ہیں۔جیسے بھاگتا ہوا وقت گزر جاتا ہے۔ میں کٸی دفعہ سوچتا ہوں ان جوان لوگوں کے ذہن میں میرا تصور کیا ہو گا۔ مچھلی نما انسان یا پروہت۔“