نثری نظم ”غلام زندگی کا جہنم“ کی برجستہ تفہیم

یہ تحریر 345 مرتبہ دیکھی گئی

کہیں نہ کہیں ہمیں روز احساس دلایا جاتا ہے کہ تمہارا وجود موجود ھوتے ھوٸے بھی معدوم ہے، بالفرض اگر کسی بندے کی پیداٸشی دنیا ہی جبر و غلامی کے زیر سایہ تھی تو بعد از اس خیال سے اُسے آٸے روز کچوکے لگنا ایک شعوری علامت ہے، ہاں اس بات کو جب کوٸی اپنے وجود کا ناگزیر حصہ سمجھ لیتا ہے تو پھر معاملہ غلام زندگی کے جہنم کے برعکس ہوتا ھے۔ جب، جو، جیسے کو قبول کرنے کے لیے خود کو تیار کر لیتے ہیں تو ارتقا پر ایک کاری ضرب تو وہ خود ہی لگا دیتے ہیں، مزاحمت کا استعارہ جب تک ہماری فکری دنیا سے شروع نہیں ہو جاتا، بات تب تک عمل کی طرف بڑھتی نظر نہیں آتی، میرے خیال میں ”غلام زندگی کا جہنم“ کا معاملہ غلام زدہ اور باشعور انسان کے ساتھ نتھی ہونا چاہیے نہ کہ ”پہلا“ یعنی آزاد کسی ”دوسرے“ یعنی غلام کے بارے میں اظہار کرے، باخبر انسان کے کہیں داخل سے یہ جنم لیتا ہے اور یعنی غلامی کی جہنم، خارجی جبر کی پیداوار ہے، ایک عمدہ نظم نگار ساحر شفیق کی شاہکار نثری نظم ”غلام زندگی کا جہنم“ بھی کہیں انسان کے داخلی تضادات سے جنم لیتی ہے، اور یہ تضاد اس کے خارجی حالات کی پیداوار ہیں، جیسا کہ شعور داخلی ہوتا ہے مگر یہ خارج سے تکمیل پاتا ہے بعین یہ نظم بھی ایک حساس انسان کا کرب ہے جو ایک جابر سماج کے زیر اثر اپنا نوحہ سنا رہا ہے مگر زندگی کو آزادی کے بلیغ استعارے کی مانند دیکھنے کا ہر دو صورت متمنی ہے۔ اس غلامی کا قصوروار بھی کہیں نہ کہیں وہ خود کو ٹھہرا رہا ہے، ”ہماری ماٸیں“ ایک علامت ہے جو اپنے ہونے کا توارث ہے۔ ماں کی علامت یہاں ایک تاریخی اعتبار سے مستعمل کی گٸی ہیں جس کا تعلق ارتقاٸی شعور کی نسبت ماضی کی غلامی میں مضمر ہے۔

غلام

زندگی کا جہنم

وہ ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ تم نہیں ہو/ تم کہیں نہیں ہو۔۔۔۔۔تم ہو ہی نہیں

پیدا ہوتے ہی ہمیں مٹی کے مرتبانوں میں بند کر دیا گیا۔۔۔۔۔۔تا کہ ہمارا قد نہ بڑھ سکے اور وہ ہمیں بالشتیے کہہ سکیں

بچپن میں
انہوں نے ہمارے خوابوں کی غلط تعبیریں بتاٸیں
ہم سے دوسروں کے نام کے روزے رکھواٸے گٸے
ہمیں ایسی دعاٸیں یاد کرواٸی گٸیں جو خود ان کی سلامتی کے بارے میں تھیں
جوانی میں انہوں نے اپنے بدقماش اجداد کی لوٹی ہوٸی دولت کی مدد سے
ہماری محبوباٶں سے شادیاں کر لیں۔۔۔۔۔تا کہ ہم ان کے سامنےنظر نہ اُٹھا سکیں

آخری عمر میں
انہوں نے ہمارے لیے ایک خدا تراش دیا جس کی شکل ان ہی کے ایک بزرگ سے ملتی تھی
جو بڑھاپے میں آتشک کی بیماری سے مرا تھا

ہمیں کبھی کسی نے ہمارے پورے نام سے نہیں پکارا
اب ہم سوچتے ہیں
پیدا ہوتے ہی ہمیں دریا میں کیوں نہ بہا دیا گیا۔۔۔۔؟
شاید ہماری ماٸیں ہمارے دشمنوں سے ملی ہوٸی تھیں