کچھ اپنے تجربے کچھ اپنے مکالمے

یہ تحریر 491 مرتبہ دیکھی گئی

کسی بھی اہم منصب پر فاٸز لوگوں سے میرے مکالمات کی نوعیت کچھ اس طرح کی رہی ہے۔ چند ایک یہاں پیش کیے دیتا ہوں۔ ہر بندے کا اپنا الگ مزاج ہوتا ہے جو کہ موقع بہ موقع مختلف جگہوں پر اُس کے مختلف رویوں سے ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح اس کی دلچسپیاں بھی وقت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر کسی کے کام میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں حالاں کہ وہ حقاٸق سے نہ بلد ہوتے ہیں ، اُنہیں یہ تک پتا نہیں ہوتا کہ کن حالات میں اس کام کی سرواٸیول ہو رہی ہے۔
مجھے سیاست میں خاص دلچسپی ہے۔ اسی بنا پر کچھ سیاست دانوں سے میرے تعلقات قاٸم ہیں تو اُنہیں موقع بہ موقع آگاہ کرتا رہتا ہوں کہ آپ کے فلاں کام میں شگاف پیدا ہو رہا ہے اور اس خلا کو یوں پُر کریں تو بہتری کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ کٸی سیاست دانوں نے میری تجاویز پر غور کیا اور اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ بعض ایسے بھی ہیں کہ ایک کان سے سُنتے ہیں تو دوسرے سے جھٹ سے نکال دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سیاست دان کو میں نے کہا آپ کے فلاں بیانیے کی وجہ سے آپ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بات کو دھیان سے سننے کی بجاٸے ، اُلٹا مجھے کہنے لگے آپ کو اس بات کا قطعی علم نہیں ہے۔ میں اپنی جگہ پر بالکل درست بیانیہ دے رہا ہوں اور مزید یہ کہنے میں بھی باک رہے کہ آپ ابھی بچے ہیں۔ خیر میں نے خاموشی میں عافیت جانی۔ ہوا بالآخر یوں کہ اس بندے کو وہی اس کا اپنا بیانیہ لے ڈوبا اور اب اس کی سیاست اسی بیانیے کی نظر ہو چکی ہے۔

منتخب سیاست دانوں کی وابستگی دو سطح پر ہوتی ہے یعنی انہیں حکومتی سطح پر معاملات کو بھی دیکھنا ہوتا ہے اور اپنے حلقہ کے عوام کے ساتھ میل ملاپ اور اُن کے کام (جاٸز و ناجاٸز) بھی کرنا ہوتے ہیں۔ بڑی معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اکثر سیاست دان مجھے سیاسی شعور سے عاری دکھاٸی دیے۔ اُنہیں بس اپنے حلقہ کے عوام میں اور تھوڑا بہت وسیع سطح پر پُھوں پَھاں چاہیے ہوتی ہے اور کچھ کو تو سیاست جدی پشتی وراثت میں ملی ہوتی ہے اُن کے سیاسی شعور کا تو یہ عَالَم ہوتا ہے کہ اُنہیں سیاست کی الف ب۔۔۔ کا بھی علم نہیں ہوتا۔ حقیقی معنوں میں سیاست دان وہ ہوتا ہے جو سیاست کی جُزٸیات سے واقف ہو اور اپنے عوام کی سیاسی و سماجی حرکیات سے مکمل طور پر باخبر رہے۔ میں سمجھتا ہوں سیاست میں آنے کے لیے سب سے پہلے سیاسی ذہن کا ہونا ناگزیر ہے وگرنہ ماسواٸے نام کی سیاست ہانکنے کے وہ کچھ نہیں کرے گا۔ اکثر سیاست دانوں نے اپنے حلقہ میں سیاسی ٹاٶٹ رکھے ہوتے ہیں وہ ٹاٶٹ اُنہیں اس قدر گھیرے رکھتے ہیں اور سب اچھا ہے کی رپورٹ ہمہ وقت دیتے رہتے ہیں اور آپ ہی آپ ہیں کے نعروں کی گونج ہمہ وقت ان کے کان میں بھرتے دکھاٸی دیتے ہیں۔ نالاٸق سیاست دان ان کی مجہول رپورٹس اور بے بنیاد فلک شگاف نعروں میں خوش رہتے ہیں حالاں کہ سیاست کا داٸرہ کار ایسے طور و اطوار سے قطعی طور پر ماورا اور کہیں وسیع ہوتا ہے۔ ایک سیاست دان کا مکمل طور پر عوام سے تعلق ہونا چاہیے۔ وہ اپنے عوام کا نماٸندہ ہوتا ہے۔ اُسے اس بات کا ترجیحی بنیادوں پر ادراک ہونا چاہیے کہ میں عوام کا نماٸندہ ہوں ، مجھے عوام میں رہنا ہے اور انہی کے لیے اپنی خدمات سرانجام دینا ہیں۔ اب ریاستی سطح پر اپنے معاملات اور عوام تک اپنی رساٸی کو کیسے متوازن رکھنا ہے، یہ ہر ایک سیاست دان کی اپنی ذہنی و عملی اپروچ پر منحصر ہوتا ہے۔ عوام بھی ایسے باشعور انسان کا انتخاب کریں جو سیاسی خوبیوں سے مالا مال ہو وگرنہ ذلالت ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔

میری اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں جب تقرری ہوٸی تو وہاں تعینات واٸس چانسلر صاحب سے بہترین تعلقات استوار ہو گٸے۔ جب جب ان سے ملاقات ہوتی تو میں انہیں جامعہ میں درپیش مساٸل سے آگاہ کرتا اور اس طرف نشاندہی بھی کرتا کہ فلاں کام ٹھیک سے نہیں ہو رہا اگر اس کام کو ایسے کر لیا جاٸے تو زیادہ بہتری ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر میں نے انہیں کہا جامعہ میں آپ نے بے شمار ڈاٸریکٹرز بنا دیے ہیں ، اتنے سارے ڈاٸریکٹرز بنانے کی کوٸی ضرورت نہیں یعنی اس کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے اور اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ دوسری کٸی جامعات میں محض چار ، پانچ ڈاٸریکٹرز سے زیادہ نہیں ہیں اور وہ بھی ازحد لازم ہوتے ہیں جب کہ یہاں تو ان کی بھرمار ہو چکی ہے۔ اس سے بلا ضرورت مالی بوجھ جامعہ پر پڑ رہا ہے۔ اسی بابت یہ استفسار بھی کیا کہ بعض شعبہ جات میں صدرِ شعبہ ہے تو اسی میں ایک ڈاٸریکٹر بھی ہے۔ سب سے پہلے تو ان کے عہدہ کی تخصیص کریں کہ صدر شعبہ بڑا ہے یا ڈاٸریکٹر ، پھر ان کے الگ الگ اختیارات کو واضح کریں۔
ایک اور بات جو کہ کٸی اساتذہ کے علم میں بھی ہے کہ واٸس چانسلر صاحب نے ایک بار پوری جامعہ کے ہر شعبہ پر سنٹرالاٸزڈ ٹاٸم ٹیبل کا نفاذ کر دیا۔ اس سے سبھی اساتذہ سیخ پا ہوٸے کہ ایک استاد جس کو دن میں دو لیکچرز پڑھانا ہوتے۔ اس کی ایک کلاس صبح آٹھ بجے ہوتی جب کہ دوسری کلاس رات نو بجے ہوتی۔ اس سے وہ استاد صبح سےشام یا رات گٸے تک پابند ہو کر بیٹھا رہتا حالاں کہ ایک استاد کو اس کے علاوہ بھی کٸی امور سر انجام دینا ہوتے یعنی پڑھانے کے علاوہ گھر کے کام کاج وغیرہ اور یوں وہ پابند ہو کر رہ جاتا۔ میں نے واٸس چانسلر صاحب کو تمام اساتذہ کی اس تشویش سے آگاہ کیا۔ انہوں نے اس بات کی تھوڑی بہت پوچھ گچھ بھی کی لیکن میں اس بات پر حیران ہوا کہ کوٸی آواز اُٹھانے کی جرآت نہیں کر رہا تھا سب آپس میں ایک دوسرے کو کوس رہے تھے۔

میرے اپنے تجربے میں کٸی بار یہ آیا ہے کہ بڑے منصب پر فاٸز بندے کو جب کسی مسٸلے سے آگاہ کیا جاتا ہے تو یہ لازمی سننے کو ملتا ہے کہ مجھے تو کسی نے اس مسٸلے سے آگاہ نہیں کیا اور بعض دفعہ تو واقعی اسے پہلے سے اس مسٸلے کا علم نہیں ہوتا۔ معاملہ دراصل یہ ہے کہ اس منصب پر فاٸز بندے تک کم از کم سچ تو پہنچایا جاٸے اور ہاں اکثر و بیش تر ضرور اس کا فاٸدہ ہوتا ہے۔ المیے کی بات یہ ہے کہ کسی بڑے منصب پر فاٸز بندے تک رساٸی اُن لوگوں کی ہوتی ہے جو سب اچھا ہے کی خبر سے اُنہیں ہمہ دم بھرتے رہتے ہیں۔ اکثر میرے دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ بڑے منصب پر فاٸز لوگوں سے جن کے تعلقات ہوتے ہیں لوگ اُنہیں دوسروں کی شکایات سے ( یعنی جن کو وہ بڑے منصب والے ناپسند کرتے ہیں ) اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں اور اکثر کامیاب بھی ٹھہرتے ہیں۔ میں نے اپنے والد صاحب سے ایک بات سیکھی ہے کہ کسی بھی انسان کے دل میں جگہ اپنے بل بوتے پر بناٶ نہ کہ دوسروں کی شکایات کرنے سے، اگر ایسا کرو گے تو وہ بھی آپ کے نہیں رہیں گے۔ انسان کو ہر دو صورت اپنے حصے کا کام کرتے رہنا چاہیے۔ کسی بھی چیز کے دو رُخ ہوتے ہیں، اگر کچھ بُرا ہے تو یقیناً کافی اچھا بھی ہے۔

شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے