نیا عہد نامہ : میں روشن خیالی کے بنیادی اشارے

یہ تحریر 719 مرتبہ دیکھی گئی

حصہ چہارم

محض تعلیم ہی کسی انسان کو بڑا انسان نہیں بناتی، مع اس کے کٸی لوازمات ہوتے ہیں جو انسان کو بڑا بنانے میں بطور ایک معاون کا کردار ادا کرتے ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں ان لوازم میں ”تربیت“ ہی ایک سب سے بڑا کارن ہے، لیکن اس کا کردار بھی بنیادی سطح پر ہونا چاہیے، بچپن میں یعنی بنیاد میں اس کو مضبوط کیا جاٸے، تو ہی ثمر بارآور ہو سکتا ہے، وگرنہ وہ نتاٸج نہیں ملیں گے جو کہ مثالی کہلاٸے جا سکتے ہیں۔ واضح رہے تربیت کا عمل دخل انسان کے داخل سے ہے، نہ کہ خارج سے، بظاہر اس کی اِن پٹ، خارج سے کی جاتی ہے، لیکن اس کا اصل فنکشن داخل سے ہوتا ہے۔ یہ انسان کو اندر سے بدلتی ہے، ابھی ہم اسی حوالہ سے انجیل سے ایک مثال پیش کرتے ہیں، یسوع بھی باطن پہ زور دیتا ہے، اور یہ ایک مکمل طور پر سماجی عمل ہے نہ کہ الہیاتی معجزے نامی شے کا اس میں کوٸی کردار ہوتا ہے، ملاحظہ ہو۔

”جب وہ بات کر رہا تھا تو کسی فریسی نے اس کی دعوت کی۔پس وہ اندر جا کر کھانا کھانے بیٹھا۔ فریسی نے یہ دیکھ کر تعجب کیا کہ اُس نے کھانے سے پہلے غسل نہیں کیا۔ خداوند نے اُس سے کہا اَے فریسیو! تم پیالے اور رکابی کو اوپر سے تو صاف کرتے ہو لیکن تمہارے اندر لوٹ اور بدی بھری ہے۔ اَے نادانو ! جس نے باہر کو بنایا، کیا اُس نے اندر کو نہیں بنایا? ہاں اندر کی چیزیں خیرات کر دو تو دیکھو سب کچھ تمہارے لیے پاک ہو گا۔“

یسوع باہر کی صفاٸی کو اہم خیال نہیں کرتے بلکہ اندر کی پاکیزگی کو بدرجہ اتم جانتے تھے، اور اسی بات کی ہی وہ تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔

ایک بات جو تقریباً ہر الہیاتی متن میں رقم ہے کہ ”مرکز“ کی ہر صورت حفاظت کی جاٸے، گو یسوع کا خدا بھی ”مرکز“ کو قاٸم رکھنے کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے، ”مرکز“ یعنی الہیات۔۔۔ الہیات اپنے مرکز سے ہی قاٸم اور باقی رہتی ہے، اگر اُس کا اپنے مرکز سے ہی ناطہ ٹوٹ جاٸے تو سمجھو وہ بالکل کھوکھلی ہو جاتی ہے بہرحال اس کی بقا اپنے مرکز سے مشروط ہے۔ اسی حوالہ سے انجیل سے ایک بیان ملاحظہ کریں۔

”اور کوٸی ابنِ آدم کے خلاف کوٸی بات کہے اُس کو معاف کیا جاٸے گا لیکن روح القدس کے حق میں کفر بکے اس کو معاف نہ کیا جاٸے گا۔“

پس اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روح القدس کے حق میں کفر بکنے والے کو معاف نہیں کیا جاٸے گا یعنی مرکز کو بُرا بھلا کہنے والے کو، اگر آپ یہاں غور کریں تو ایک نکتہ سامنے آتا کہ خداوند اپنی بقا ہر صورت چاہتا ہے، اور اپنا راستہ ہر طریقے سے محفوظ رکھنے کی بات کرتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی عیاں ہو جاتی ہے کہ الہیات اپنے حوالے سے کس قدر بے یقینی کا شکار ہے، اور اسی تشویش میں رہتی ہے کہیں کوٸی مجھ پر سوال نہ اُٹھا دے، اگر اس کی بنیادوں میں اتنا ہی اثبات ہے تو پھر اس قدر بے یقینی کیوں؟

نیا عہد نامہ کی قرآت سے ایک مشاہدہ،،، انجیل میں معافی کی بڑی گنجاٸش ہے، جیسا کہ اس میں درج ہے، ”خبردار رہو! اگر تیرا بھاٸی گناہ کرے تو اُسے ملامت کر۔ اگر توبہ کرے تو اُسے معاف کر۔ اور اگر وہ ایک دن میں سات دفعہ تیرا گناہ کرے اور ساتوں دفعہ تیرے پاس پھر آ کر کہے کہ توبہ کرتا ہوں تو اُسے معاف کر۔“

مطلب ایک بندہ سات دفعہ بھی غلط کرے اور ساتوں بار اس کی معافی بھی مانگ لے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اُسے معاف کر،،،

الہیاتی وجود بارے لوگوں کی بے یقینی اور ڈر، بعد از لوگوں کے استفسار پر یسوع کا جدل کرنا اور اپنے اختیار کو اُن کی نظر سے اخفا رکھنا اور قطعی اپنے اختیار کے استعمال کو الہیاتی رنگ دے کر پیش کرنا اور پھر ان ساری حقیقتوں سے ایک طرح کا اغماض برتنا، اسی بابت یہاں صراحت کریں گے۔ پہلے ہم اسی حوالہ سے لُوقا کی انجیل کے باب نمبر بیس کی بالکل ابتداٸی آٹھ آیات رقم کرتے ہیں، تا کہ اصل متن کو سامنے رکھ کر بات کی وضاحت کرنے میں سہولت ہو۔

”اُن دنوں میں ایک روز ایسا ہوا کہ جب وہ ہیکل میں لوگوں کو تعلیم اور خوشخبری دے رہا تھا تو سردار کاہن اور فقیہ بزرگوں کے ساتھ اس کے پاس آ کھڑے ہوٸے۔ اور کہنے لگے کہ ہمیں بتا۔ تُو ان کاموں کو کس اختیار سے کرتا ہے یا کون ہے جس نے تجھ کو یہ اختیار دیا ہے؟ اُس نے جواب میں اُن سے کہا کہ میں بھی تم سے ایک بات پوچھتا ہوں۔ مجھے بتاٶ۔ یوحنا کا بپتسمہ آسمان کی طرف سے تھا یا انسان کی طرف سے؟ اُنہوں نے آپس میں کہا کہ اگر ہم کہیں آسمان کی طرف سے تو وہ کہے گا تم نے کیوں اس کا یقین نہ کیا۔؟ اور اگر کہیں کہ انسان کی طرف سے تو سب لوگ ہم کو سنگسار کریں گے کیوں کہ انہیں یقین ہے کہ یوحنا نبی تھا۔ پس انہوں نے جواب دیا ہم نہیں جانتے کہ کس کی طرف سے تھا۔ یسوع نے اُن سے کہا میں بھی تمہیں نہیں بتاتا کہ ان کاموں کو کس اختیار سے کرتا ہوں۔“

ہیکل یعنی عبادت خانہ، میں یسوع کا لوگوں کو تعلیم اور نوید دینا، اسی دوران سردار اور فقیہ بزرگوں کا اُن کے پاس آ کر کھڑے ہو جانا، ساتھ ہی استفسار کرنا کہ تُو ان کاموں کو کس اختیار سے کرتا ہے؟ یا کون ہے ایسا جو تجھے یہ اختیار دیتا ہے؟ اب ایک غور طلب نکتہ یہاں یہ ہے کہ بجاٸے یسوع اس سوال کا جواب دینے کے، اُلٹا جدل سے کام لیتا ہے، جدل یعنی مناظرہ نما بحث کرنا، سوال کرنے والے کے سوال کو واپس اپنے سوال کی شکل میں لوٹا دینا، یا اگلے کے سوال میں سے جواب یا جواب میں سے سوال نکالنا، یا اُسی بحث کو تکرار کی شکل میں آگے بڑھاتے جانا، یہ سب جدل کہلاتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یسوع، اُنہیں اپنے تٸیں تسلی بخش دیتا، مگر یسوع کے پاس اس کا جواب ہی نہیں تھا، لہذا اس نے فی الفور جدل کرنے میں ہی عافیت جانی۔ جدل، یوحنا کے بپتسمہ کے متعلق تھا، ایک طرح کا یسوع کا سوال ریفرینڈم نما تھا، یعنی ہاں یا ناں میں، ویسے بھی الہیات ہر صورت بس اپنا اطلاق ہی چاہتی ہے، اُن لوگوں نے بھی درمیانی رہ میں نجات محسوس کی، اور کہا ”ہم نہیں جانتے“۔۔۔۔ یہاں انسان کا دو طرف ذہن جاتا ہے، ایک یعنی یوحنا کا بپتسمہ اگر واقعی آسمان کی طرف سے تھا تو یسوع کو یہ پوچھنے کی نوبت ہی کیوں آٸی؟ اور دوسرا لوگوں کا ”انسان سے بپتسمہ“ بارے میں بھی نہ بتانا یہ تشویش و خوف کی بنا پر تھا، یہیں ایک نکتہ بھی پنہاں ہے کہ الہیات کا ہر دور میں ہی کسی نہ کسی شکل میں جبراً نفاذ کیا جاتا تھا، لوگوں کا خوف اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے اور یہی اس بات کا ثبوت بھی ہے۔ ان لوگوں کا درمیانی رہ والا جواب سن کر یسوع بھی ویسا ہی ردِ عمل دیتا ہے، جیسا اُنہوں نے دیا۔ حالانکہ یسوع اتنا ہی سچا تھا تو خاموشی کا مظاہرہ کرتے ہوٸے مطلق حقیقت سے روگردانی نہ کرتا، تو پھر ایسا سکوت چہ معنی دارد۔۔۔۔۔ یہ بھی ایک سچ معلوم پڑتا ہے، ان کے پاس اس بات کا کوٸی جواب تھا ہی نہیں۔

اس ساری وضاحت کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ الہیاتی تضادات خود الہیاتی متون کے اندر سے ہی برآمد ہوتے ہیں جو اس بات کا کھلم کھلا ثبوت ہیں کہ الہیات جس کلیت کا دعوی کرتی ہے، وہ خود ہی اس میں پھنس جاتی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے وہ اپنے مہابیانیاٸی دعوی میں ہی مساٸل لیے ہوتی ہے، اور جہاں وہ ان مساٸل کا منطقی حل پیش نہیں کر سکتی ،وہاں وہ ان تضادات کو بذریعہ طاقت پُر کرنا چاہتی ہے، بعد از یہی شے اس کا ابطال کرتی ہے۔ اس بحث کے ذریعے ہم آپ پہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ الہیاتی متون اپنی دفاعی پوزیشن میں بے بس ہو چکے ہیں، کاٸنات تغیر پذیر ہے، اور اب ساٸنس اس قدر آگے بڑھ چکی ہے کہ اس نے الہیات کی حقیقت عیاں کر دی ہے۔ اُن لوگوں کے پوچھنے پہ یسوع کا پہلے جدل کرنا اور پھر قطعی چپ سادھ لینا، یہ ثابت کرتا ہے کہ اصل حقیقت مادی دنیا ہی ہے، باقی سب سراب ہے، دوسرا اس مکمل بحث سے ماوراٸیت سے مادیت کی طرف ایک واضح سفر بھی نظر آتا ہے۔