دریاٸی کلچر اور دھبی بلوچاں

یہ تحریر 709 مرتبہ دیکھی گئی

دھبی بلوچاں کو یہ اختصاص حاصل ہے کہ اس کا کچھ علاقہ دو دریاٶں (چج) کے وچہن (آغوش) میں بھی پایا جاتا ہے۔ یہ جھنگ کی تحصیل اٹھارہ ہزاری کے شمال کی جانب واقع ہے۔ وہاں دریا، بیٹ اور اپنوں میں گزرے چند لمحات جو کہ ان مختصر تاثرات کی صورت ملاحظہ کریں۔
دریا اپنے میکانزم میں (نفسیاتی حوالے سے) خودرو ہوتا ہے۔ اس کا کوٸی طے شدہ نظام نہیں ہوتا۔ یہ اپنے راستے خود بناتا چلا جاتا ہے۔ دریا اپنی جنگ خود لڑتا ہے۔ حیرت کی بات کہ یہ ہمیشہ غالب ہی رہتا ہے۔ دریا کی سب سے خوفناک بات کہ یہ اپنے بہاٶ میں بے رحم واقع ہوتا ہے۔ دریا اپنے کندھوں پر بیٹھے باسیوں کے ساتھ بے رحمی کی ایک طویل تاریخ لیے ہوتا ہے۔ اس کا تعلق اپنے مضافاتیوں کے ساتھ دو طرفہ نوعیت کا ہوتا ہے یعنی جہاں یہ اُنہیں رزق مہیا کرنے کے اسباب پیدا کرتا ہے وہیں ستم کرنے پر آٸے تو اُن سے اُن کی آشیانے تک بھی چھین لیتا ہے۔ دریا کے کناروں پر بسنے والوں کی زندگی زمان و مکان سے ماورا سی لگتی ہے۔ یہ لوگ وقت کی رفتار سے آگے چلتے ہیں اور وقت کہیں پیچھے دکھاٸی دیتا ہے یعنی زندگی وہاں بالکل آہستہ رو ہو جاتی ہے۔ میں نے غور کیا ہے کہ دریاٸی لوگوں کے دل بھی دریا کی مانند ہوتے ہیں اور دریا کی خوفناک لہریں ان کے اندر کے خوف کو کہیں معدوم کر چکی ہوتی ہیں۔ یعنی وہ دریا کی خوفناک طغیانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ایسا بھی ہرگز نہیں ہوتا کہ اُس منہ زور طغیانی جو کہ نقصان کے احتمال سے بھری ہوتی ہے سے خوفزدہ ہو کر وہ بھاگ جاٸیں بلکہ اس کا پوری جوانمردی سے مقابلہ کرتے ہیں۔ تجربے میں یہ بھی آیا ہے کہ دریا کی زد میں ہمیشہ کمزور لوگ مارے جاتے ہےجب کہ طاقت ور بچ نکلتے ہیں۔ دریاٸی لوگوں کی اصل جنگ دریا سے ہی ہوتی ہے یعنی یہ ہمیشہ اسی سے نبرد آزما رہتے ہیں۔ دریا کنارے بسنے والے لوگ دنیا کے کسی کونے میں بھی چلے جاٸیں وہاں یہ آرام سے رس بس جاتے ہیں چونکہ دریا کے قُرب میں بسنے والوں کے لیے خود دریا اپنے اندر ایک پورا دبستان رکھتا ہے۔ اس دبستان کی تعلیمات وسیع بنیادوں پر ہوتی ہیں اور یہی دریاٸی تعلیمات اُن کے ارادوں کو دنیا کی کسی جگہ پر متزلزل نہیں ہونے دیتیں۔

بیٹ کا علاقہ بھی دریا کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ وہاں لوگوں کی بودوباش، جغرافیاٸی زیر و بم، فصلوں کے نشیب و فراز، لوگوں کے سکونتی آہلنے اور بیٹ کے مکمل کلچر کا دریا کے بہاٶ اور کٹاٶ پر انحصار ہوتا ہے۔ دریاٸی منطق اپنی بُنتر میں سفّاکانہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر دریا اگر سفّاکی پر اُتر آٸے تو لوگوں کی ساری کی ساری جاٸیداد (زمین) ہڑپ کر جاتا ہے اور سالہا سال تک اپنے پاس رکھتا ہے اور کسی کی اتنی جرآت نہیں ہوتی کہ جاٸیداد کو اس کے قبضہ سے واگزار کروا لے چونکہ دریا اپنے بہاٶ میں بہتا ہے ہاں جب یہ رج جاتا ہے تو پاٹ جاتا ہے اور اپنے بہاٶ میں نٸے راستوں کا متلاشی بھی ہوتا ہے۔ بعض اوقات اپنے گزشتہ بہاٶ سے قطعی طور پر ہٹ جاتا ہے اور نٸی راہوں کا مسافر ٹھہرتا ہے۔ تب کٸی لوگوں کی نجات کا ساماں اس کے گزشتہ بہاٶ سے قطعی طور پر ہٹنے میں مضمر ہوتا ہے۔ دریاٸی چَھڑوں میں خیر سگالی ہوتی ہے۔ اس سے خوشحالی آتی ہے۔ دریا کے مضافات میں بسنے والے لوگوں کے لیے چَھڑوں کا سلسلہ تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہوتا ہے۔ اس سے وہی لوگ مستفید ہوتے ہیں جو بیٹ کے علاقے اور اس سے تھوڑا دوری پر رہاٸش پذیر ہوتے ہیں۔
بیٹ اور اس کے قُرب و جوار میں رہنے والوں کے گھر مٹی کے بڑے بڑے تَھڑوں پر بنے ہوتے ہیں تاکہ دریا کے چڑھاٶ کی صورت میں پانی اُن کے گھروں میں جلد داخل نہ ہو سکے اور وہ اس خطرے سے محفوظ رہیں۔ بیٹ کے مکینوں کے دل خطروں سے ماورا ہوتے ہیں اس لیے کہ وہ دریا کی طغیانیوں کے تھپیڑے نسلوں سے سہتے چلے آ رہے ہوتے ہیں۔ دریا کے کناروں پر بسنے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مجرم ذہنیت کے واقع ہوتے ہیں لیکن اس بات کا اطلاق دھبی بلوچاں اور اس کے نواح میں بسنے والے موضع جات یعنی بہادری بلوچاں، نکے بلوچاں، بنڈہ بلوچاں اور کوٹلہ نیک احمد خان پر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ لوگ حد درجہ مہمان نواز ہیں۔ دھبی والے بلوچوں (بالخصوص) کی ایک خاصیت ہے کہ یہ لوگ بہت سِک محبت کرنے والے واقع ہوٸے ہیں۔

دریا کے دونوں کناروں پر رہنے والوں کا ایک دوسرے سے رابطے کا ذریعہ بیڑیاں (کشتیاں) ہوتی ہیں۔ پہلے پہل چھوٹے چھوٹے کہوٹے ہوتے تھے جو رابطے کا ذریعہ ہوتے تھے جن کو وَجھ (چپو) کی مدد سے چلایا جاتا تھا۔ اب بیڑیاں جو کہ کہوٹوں سے بڑی ہوتی ہیں اُن پر پیٹر انجن کَس دیے گٸے ہیں تاکہ سفر کو تیز بنایا جا سکے اور وَجھ مارنے جیسے جان جوکھوں کے کام سے بھی نجات ملے۔

دریاٸے جہلم کا پیٹ دھبی بلوچاں کے قریب آ کر کافی پھیل جاتا ہے اور گہراٸی کم و بیش تیس سے چالیس فٹ تک جا پہنچتی ہے۔ دھبی والا پتن آمدورفت کے حوالے سے کافی مشہور ہے۔ یہاں ہمہ وقت لوگ آ رہے ہوتے ہیں اور جا رہے ہوتے ہیں۔ لوگ (بالعموم) اپنے مکمل سازوساماں اور ضروریات زندگی کی اشیا یعنی سودا سلف بھی ساتھ لیے ہوتے ہیں۔ اگر کسی کے پاس ساٸیکل، موٹر ساٸیکل، کار، شہہ زور ڈالے، ٹریکٹر ٹرالی ہوں تو وہ بھی بیڑی پر لاد کر پار لے جاتے ہیں۔ دھبی بلوچاں، بہادری بلوچاں، نکے بلوچاں اور بنڈہ بلوچاں کے لوگوں کو قریب ترین شہر اٹھارہ ہزاری پڑتا ہے، اُنہیں شہر جانے کے لیے دریا کو لازمی عبور کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے جیسا کہ پہلے بتا چکا ہوں بذریعہ بیڑی دریا کو پار کرتے ہیں۔ وچہن یعنی چج کے درمیانی علاقے سے اٹھارہ ہزاری کی طرف دھبی والا پتن سے آٸیں تو دریا کی دوسری جانب بھی دھبی بلوچاں کا علاقہ پایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ موضع کوٹلہ نیک احمد خان آتا ہے اور جو پرانا خوشاب روڈ ہے اس پر لوہاراں والا، موضع سوبھیانہ ( سوبھے خان کی نسبت سے)، اس کے مغربی اطراف میں دوسا قریشیاں، کُنل شیروآنہ، ٹبہ جھاکی بلوچاں اور رام پور آتے ہیں۔ رام پور کے حوالے سے ایک مجہول بات بتاتا چلوں کہ اسے مشرف بہ اسلام کر کے اسلام پور بنانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ سخت کافر ابھی تک رام پور ہی ہے۔ ہندی و فارسی نام کس قدر خوب صورت ہوتے تھے جن کو اب بدلا جا چکا ہے۔ جیسا کہ کوٹلہ نیک احمد خان کے پاس جو دھبی کا علاقہ آتا ہے، اسی جگہ سے پرانے خوشاب روڈ پر منڈے سید ، کوٹ ملدیو (اب کوٹ ملدے) اور کُنل شیروآنہ سے آگے چھوہن آتا ہے۔ چھوہن ایک مقامی آبادی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں ہندو تاجروں کا بہت بڑا مرکز ہوا کرتا تھا، اس کا نام چھوہن حافظوں سے مٹتا جا رہا ہے اور اب یہ پیر غازی شاہ کی نسبت سے غازی آباد ہے۔ ناموں کی تبدیلی کے حوالہ سے میرا مٶقف واضح ہے کہ کسی جگہ کا نام تبدیل کرنے سے وہاں کے کلچر کو مجروح کرنے والی بات ہے۔ البتہ اگر کسی جگہ کا نام وہاں کی مقامی زبان میں بُرے معنوں میں مستعمل ہو تو تب نام بدل لینے میں کوٸی مضاٸقہ نہیں ہے۔
اسی طرح اگر آپ دھبی (نزد کوٹلہ نیک احمد خان)سے اٹھارہ ہزاری شہر کی طرف رُخ کریں تو اس سے تھوڑا پہلے مغربی جانب آستانہ آتا ہے اور آستانہ کے جنوب کی طرف موضع واصو پایا جاتا ہے۔ اٹھارہ ہزاری شہر سے مشرق کی جانب کوٸی پانچ چھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہیڈ تریموں واقع ہے اور اسی راستے پر مزید تھوڑا آگے ملہوآنہ موڑ آتا ہے اور وہیں سے شمال کی جانب جو سیدھا راستہ جا رہا ہے وہ جھنگ شہر کو جاتا ہے۔ اٹھارہ ہزاری سے مغربی جانب ملتان کو سڑک جاتی ہے۔
اٹھارہ ہزاری کے اطراف میں جو موضع جات پاٸے جاتے ہیں اُن میں کچھ کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ کچھ کا تذکرہ مزید کیے دیتا ہوں تاکہ اس علاقے کا جغرافیاٸی منظر نامہ پورے طور پر واضح ہو جاٸے۔ اٹھارہ ہزاری کے مغربی جانب موضع پروزیاں (پرانا نام فیروزیاں تھا) اور اس سے تھوڑا آگے اُچ گل امام واقع ہے۔ پروزیاں سے تھوڑا آگے ایک سڑک باٸیں طرف مڑتی ہے اُس پر دارا اور وساوا آتے ہیں۔ پروزیاں سے آگے جو سڑک شمال کی جانب ڈال موڑ کو جاتی ہے اُس پر موضع قیصر والا آتا ہے۔
اٹھارہ ہزاری سے جو سڑک ملتان کو جاتی ہے اُس پر درگاہی شاہ، موضع لاشاری (موضع لاشاری کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں میں معاصر تعلیم کی طرف کافی رجحان پایا جاتا ہے)، روڈو سلطان ، ہسو بُلیل، کوٹ بہادر اور شریف آباد آتے ہیں۔

اٹھارہ ہزاری کے بغل سے ایک سڑک مغربی جانب نکلتی ہے جو سیدھی گڑھ مہاراجہ جاتی ہے۔ یاد رہے اسی چھوٹے سے شہر میں نامور اور باکمال شاعر سلطان باھو کا مزار بھی واقع ہے۔ اسی سڑک پر ٹبہ گہلی، جوسہ بلوچاں، فتح پور پرٹی، اسلام والا، بُولا بلوچاں، کوٹ مپال اور گڑھ مہاراجہ آتے ہیں۔ سفر کے دوران بعض دفعہ کٸی جگہوں کے ایسے عجیب نام سننے کو ملتے ہیں کہ بندہ انگشت بدنداں رہ جاتا ہے اور اُن کی وجہ تسمیہ جاننے پر کٸی طرح کی افسانوی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔ جیسا کہ ابھی میں نے موضع اسلام والا کا نام لیا ہے تو اس کے نام سے خود مجھے اپنے کافر ہونے کا شاٸبہ ہونے لگا یعنی اس کا مطلب تو صاف یہی بنتا ہے کہ جو یہاں رہتے ہیں وہی اسلام والے ہیں باقی ٹھہرے کافر۔۔۔ اسی طرح اٹھارہ ہزاری کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بھی کٸی طرح کی باتیں لوک کلچر کا حصہ بن چکی ہیں، جن کا حقیقت سے خال ہی واسطہ ہے۔

دھبی بلوچاں جغرافیاٸی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم ہے۔ دریا کے دونوں اطراف میں دھبی بلوچاں کا رقبہ پایا جاتا ہے۔ اٹھارہ ہزاری سے پرانے خوشاب روڈ پر جاٸیں تو کوٹلہ نیک احمد خان کراس کرتے ہی دھبی بلوچاں کا رقبہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ علاقہ اپنی زرخیزی کے حوالے سے مشہور ہے۔ یہاں کی مٹی بڑی نرم و ذرخیز ہے۔ یقیناً اسی لیے یہاں کے لوگ بھی دلی طور پر حد درجہ نرم واقع ہوٸے ہیں۔ یہاں زیادہ تر کماد، دھان اور گندم کی فصل کاشت ہوتی ہے۔ جانوروں کے لیے کٸی اقسام کے چارے بھی کاشت کیے جاتے ہیں۔ مال مویشی میں یہاں بھینس، گاٸے، بھیڑ اور بکریاں پاٸی جاتی ہیں۔ ان رقبوں کا نہری پانی نہیں ہے۔ جگہ جگہ ٹیوب ویل لگے ہوٸے اور لطف کی بات کہ دریا کی وجہ سے پانی اونچے ہیں لہذا یہاں کے لوگوں کو پانی کی قلت کا مسٸلہ کبھی درپیش نہیں آیا۔ دھبی بلوچاں کا علاقہ کٸی بار دریاٸی ریلوں کی زد میں آیا، مال اسباب کے تھوڑے بہت نقصان کے علاوہ اور دریا کی تھوڑی بہت ڈَھا کے باوجود محفوظ رہا اگرچہ کامرہ بلوچاں (جو کہ دھبی بلوچاں کے نزد میں واقع ہے) تمام تر دریا کی زد میں آ گیا تھا اور اس کا رہاٸشی علاقہ اب قطعی طور پر دریا بُرد ہو چکا البتہ کامرہ بلوچاں کی کچھ زرعی زمینیں بچ گٸی تھیں۔

دھبی میں اکثریت بلوچوں کی ہے اسی وجہ سے یہ علاقہ دھبی بلوچاں کہلاتا ہے۔ یہاں کے بلوچ (رند) میر چاکر اعظم رند کی اولاد سے ہیں۔ اس جگہ سے تعلق رکھنے والے چند ایک ایسے افراد کا ذکر کرنا چاہوں گا جنہوں نے سماج میں مختلف حوالوں سے اپنا نام پیدا کیا۔ یہاں کے اواٸل لوگوں میں دوست محمد خان کا نام آتا ہے جو سفید پوش ہونے کے ساتھ پنجابی کے خوب صورت شاعر بھی تھے۔ مقامی لوگ مجالس پر آج بھی ان کے لکھے نوحے پڑھتے ہیں۔ ان کے بیٹے محمد حیات خان (بیدار) لارنس کالج مری کے پڑھے ہوٸے تھے۔ آپ ”تواریخ بلوچاں“ کے مٶلف اور پنچایت آفیسر تھے۔ بیدار آپ کا شاعرانہ تخلص تھا۔ ادبی حوالے سے آپ کا ذوق بہت عمدہ تھا بیدار خود ایک اچھے شاعر بھی تھے اُن کا ایک شعر ملاحظہ کیجٸے:

اس جہاں داری میں مشکل ہے بچانا دل کا
کوٸی بتلاٸے ہمیں قابو میں لانا دل کا

وضاحتی طور پر یہ بتاتا چلوں کہ محمد حیات خان بیدار کے بیٹوں میں شعیب علی خان نے سیاسی و سماجی حوالے سے خوب نام کمایا اور اپنے علاقہ سے چیٸرمین منتخب ہوتے رہے۔ شعیب علی خان کے تین بیٹے اظہر عباس خان (سیاسی و سماجی شخصیت) ، ظفر عباس خان (کاروباری انسان) اور طارق عباس خان (بلدیہ) ہیں۔ اظہر عباس خان کی دو بیٹیاں ڈاکٹر اور بیٹا مہدی خان وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہو چکا ہے۔ محمد حیات خان بیدار کے دوسرے بیٹے نجف علی خان ریٹاٸرڈ آفیسر ہیں۔ محمد حیات خان بیدار کے نواسے عمران سکندر بلوچ بیوروکریٹ ہیں اور ان کی دو بہنیں ڈاکٹر ہیں۔ محمد حیات خان بیدار کے ساتھ اہم نام سرفراز خان کا آتا ہے۔ آپ بھی لارنس کالج مری کے فارغ التحصیل تھے۔ اپنے وقت میں آپ ذیلدار اور سفید پوش تھے۔ یہاں یہ ذہن نشین رہے کہ سرفراز خان کے والد لنگر خان (جو کہ دوست محمد خان کے چچا تھے) بھی اپنے وقت میں ممبر ڈسٹرکٹ بورڈ و سفید پوش رہے۔ سرفراز خان کے بیٹے انور علی خان بلوچ جو کہ معروف سیاست دان تھے۔ آپ فیصل آباد سے منتخب ہوتے رہے اور سیاست کی دنیا میں اپنے نام کی عزت کماٸی جب کہ ان کی پوتی محمل سرفراز صحافت کی دنیا سے وابستہ ہیں۔ لنگر خان (یہ ولایت اللہ خان کے بیٹے تھے) کا ذکر کرنا اس لیے ناگزیر سمجھتا ہوں کہ انہوں نے ساٹھ کی دہاٸی میں ایگری کلچر یونی ورسٹی لاٸل پور سے بی ایس آنر کیا اور زراعت کے میدان میں جدید طرز پر کاشت کاری کو فروغ دیا۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی بھی ڈاکٹر ہیں۔ ڈاکٹر سہیل عباس خان بلوچ جو کہ اس وقت غازی یونی ورسٹی ڈیرہ غازی خان میں پروفیسر اور صدرِ شعبہ اردو کے عہدے پر فاٸز ہیں۔ اُن کا ناطہ بھی دھبی بلوچاں سے ہے۔ غازی یونی ورسٹی کو جوآٸن کرنے سے قبل وہ اوساکا یونی ورسٹی جاپان ، ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز جاپان اور ٹوکیو یونی ورسٹی آف ایگریکلچر اینڈ ٹیکنالوجی جاپان ، یعنی تین بین الاقوامی جامعات میں تدریس کے فراٸض سرانجام دے چکے ہیں۔ پاکستان میں واقع انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد میں بھی پڑھا چکے ہیں۔وہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ کٸی کتب کے مصنف بھی ہیں اور ان کے بھاٸی مظاہر خان زمیندار ہیں۔ ڈاکٹر رخسانہ بلوچ کا ذکر کرنا چاہوں گا ان کا تعلق بھی دھبی بلوچاں سے ہے۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی (برطانیہ) سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کیا اور اس وقت ویمن یونی ورسٹی فیصل آباد میں تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں، اس کے ساتھ آپ کٸی کتب کی مصنفہ بھی ہیں۔ عظمٰی نعمان کا ناطہ بھی بنیادی طور پر دھبی بلوچاں سے ہے۔ آپ بھی صحافت کی دنیا سے وابستہ ہیں۔ پہلے دنیا نیوز میں کچھ عرصہ کام کیا اور اب سنو نیوز میں اینکر پرسن ہیں۔ ان سب کے علاوہ دھبی سے تعلق رکھنے والے کٸی لوگ ہیں جو مختلف شعبوں میں اپنی خدمات سرانجام دے ہیں۔ دھبی بلوچاں سے سماجی حوالے سے بھرپور لوگوں میں حق نواز خان بلوچ (مرحوم) اور سجاد خان بلوچ کے نام بھی آتے ہیں۔ یاد رہے کہ راقم کا رشتہ ناطہ بھی دھبی بلوچاں سے جا ملتا ہے۔