کوثر پروین کے افسانے

یہ تحریر 2037 مرتبہ دیکھی گئی

            ان دنوں ایسے افسانوں کا رواج بہت ہے جن میں ملک کے سیاسی اور سماجی معاملات،مثلاً فرقہ واریت، سیاسی لیڈروں کا دیانت اور انصاف سے عاری ہونا، طاقت یاددشت کے مقابلے میں حق کا دولت بے حقیقت ہونا، امن قائم کرنے کے نام پر بے گناہوں پر ظلم، عورتوں کا استحصال، اور انسداد دہشت گردی کے نام پر کمزوروں، خاص کر مسلمانوں پر قید و بند، وغیرہ کا بیان کم یا زیادہ خوبی سے کیا گیا ہو۔ ایسے افسانوں کو میں ”اخباری“ افسانے کہتا ہوں، کیونکہ ان کی بنیاد ان کچی پکی خبروں پر ہوتی ہے جو اخباروں، ٹی وی، اور افواہوں کے ذریعہ ہم تک پہنچتی ہیں۔ ان افسانوں کے مصنفوں کی نیک نیتی اور خلوص میں کوئی شک نہیں۔ لیکن یہ بات ضرور مشکوک ہے کہ افسانہ نگار کو ان معاملات کا شعور کسی تخلیقی یا فلسفیانہ سطح پر بھی ہے۔ ان افسانوں کی دنیا سیاہ اور سفید کے علاوہ ہر رنگ سے محروم ہوتی ہے۔ ان کے کردار پیچیدگی سے عاری ہوتے ہیں۔ ان کی زبان کی پرواز اردو اخبار نویس کی لفظیات کے احاطے سے باہر نہیں جاتی۔ ممکن ہے کچھ لوگ اسے ”واقعیت“ اور ”سماجی حقیقت نگاری“ سمجھتے ہوں، لیکن در اصل یہ سستے قسم کی صحافت سے بہت الگ نہیں۔

            یک رنگی کے اس بے رنگ ہجوم میں کوثر پروین کے اکثر افسانے استثنائی حیثیت کے حامل نظر آتے ہیں۔ انھیں لکھتے ہوئے زیادہ مدت نہیں گذری ہے لیکن اب ان کی زبان ایک حد تک پختگی کی طرف مائل ہے۔ مکالمے کو برجستہ اور بر محل بنانے کی سعی بھی پہلے سے زیادہ ہے۔ موضوعات کے لحاظ سے تو ان کے افسانے ویسی ہی صورت حال پیش کرتے ہیں جس کا تھوڑا سا تذکرہ میں نے ابھی کیا ہے۔ لیکن اکثر محسوس ہوتا ہے کہ افسانہ نگار عمومی مناظر میں کوئی خاص بات دھونڈ رہی ہے، یا پھر زندگی کے بظاہر بے معنی اور رنج دہ مناظر کی تہ میں کسی بنیادی معنی یا اشارے کی تلاش میں ہے۔

            گلبرگہ کے نئے لکھنے والوں کی تحریروں کے مجموعے ”افلاک“ کے دیباچے میں میں نے لکھا تھا کہ ”کوثر پروین کے افسانے“ بن باس میں بیان کی وضاحت کے باوجود معاصر دنیا کی جرم زدگی اور بے دردی کا اچھا احساس ہے۔“ زیر نظر افسانوں میں سے بعض ایسے ہیں جن میں احساس تو ویسا ہی ہے لیکن وضاحت کم اور اشارہ زیادہ ہونے کی وجہ سے زور بڑھ گیا ہے۔

            درد کی ہلکی سی لہر کوثر پروین کے اکثر افسانوں کے قاری کو ذہن اور احساس دونوں سطحوں پر متاثر کرتی ہے۔ یعنی یہ افسانے قاری کو سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں اور رنجیدہ بھی کرتے ہیں۔ کوثر پروین کے افسانے اگر چہ زیادہ تر انہیں عمومی موضوعات پر ہیں جو آج کل مقبول ہیں، لیکن ان کے یہاں تا نیثی، یا کم سے کم نسائی احساس کی بھی کار فرمائی ملتی ہے۔ ”رحل“کی مرکزی کردار اس فکر میں ہے کہ کہیں سے کوئی شخص ایسا ملے جو شہر میں بظاہر بے مقصد گھومنے والے لیکن اس کی نظر میں مرد کامل بابا سے دعا یا کوئی ایسا وظیفہ لے لے جس کی برکت سے عام انسان کا دکھ درد کچھ کم ہو سکے۔ لیکن جس دن اس کا یہ ارادہ مستحکم ہوتا ہے، وہی دن، بلکہ اس کا اگلا دن بھی شوہر کی عدم تو جہی یا عدم مصروفیت کے باعث اسے بیرون خانہ کے ان کاموں میں گذار نا پڑتا ہے جو در حقیقت شوہر کے کرنے کے تھے۔ لیکن شوہر کو فرصت نہیں، یا وہ بیوی کے وقت کو وقت نہیں سمجھتا۔ عورت کی یہ بظاہر سادہ سی صورت حال دراصل اس کی مجبوری اور بے چارگی کی طنزیہ تصویر ہے، کہ وہ اس ارادے میں تھی کہ ساری دنیا کے دکھوں کا حل حاصل کرے، لیکن شوہر اسے بیرون خانہ کے کاموں میں الجھا دیتا ہے۔ تانیثی احساس کا یہ لطیف اشارہ بڑی خوبی سے افسانے کو معنی کی ایک نئی تہ عطا کر دیتا ہے۔

            کوثر پروین کے یہ افسانے بہت مختصر ہیں۔ کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ وہ ذرا وسعت سے کام لیتیں۔ لیکن ان افسانوں کا ایجاز عجز بیان کی وجہ سے نہیں، بلکہ کم لفظوں میں زیادہ کہنے کی کوشش کے باعث ہے۔ یہ بات بھی ان کے افسانوں کی قدر میں کچھ اضافہ ہی کرتی ہے۔

٭٭٭